کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اسی تنظیم کے سابق دھڑے جماعت الاحرار کے بانی کے قائم کردہ غازی میڈیا گروپ کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف بیانات جاری کرنے سے باہمی اختلافات سامنے آگئے ہیں۔
ٹی ٹی پی کی جانب سے سوموار کو ایک وضاحتی بیان جاری کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ غازی میڈیا نامی نشریاتی گروپ ٹی ٹی پی کا رسمی موقف سے ہٹ کر بیانات جاری کرتا ہے جو ٹی ٹی پی کا رسمی نشریاتی ادارہ نہیں ہے۔
غازی میڈیا نامی نشریاتی گروپ جماعت الاحرار کا غیررسمی نشریاتی حصہ ہے اور غازی میڈیا کی جانب سے جاری بیان کے مطابق یہ نشریاتی ادارہ احرار کے بانی سربراہ عمر خالد خراسانی نے بنایا تھا۔
عمر خالد خراسانی کو کچھ مہینے پہلے افغانستان میں ساتھیوں سمیت نامعلوم افراد کے ایک بم حملے میں جان سے گئے تھے۔ عمر خالد خراسانی کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند سے تھا اور انہوں نے جماعت الاحرار کے نام سے ٹی ٹی پی کا الگ دھڑا بنایا تھا۔
اس کے بعد اس دھڑے نے دوبارہ ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کیا تھا لیکن خالد خراسانی کی موت کے بعد ٹی ٹی پی اور احرار کے مابین بظاہر اختلافات پیدا ہوگئے تھے حتی کہ احرار کے حمایت یافتہ کچھ سوشل میڈیا اکاؤنٹس خالد خراسانی کی موت کے ذمہ دار ٹی ٹی پی کے مرکزی تنظیم کو قرار دیتے تھے۔
ٹی ٹی پی کے جاری کیے گئے بیان میں لکھا ہے کہ سوشل میڈیا پر ٹی ٹی پی سے منسوب کئی اکاؤنٹس فعال ہیں اور بعض اوقات عوام کی ذہن میں یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ یہ ٹی ٹی پی کے رسمی اکاؤنٹس ہیں۔
بیان میں عمر میڈیا نے (ٹی ٹی پی رسمی نشریاتی ادارے کا نام) ٹیلی گرام کا ایک اکاؤنٹ سمیت ایک ویب سائٹ کے علاوہ باقی تمام اکاؤنٹس سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔
اسی بیان کے مطابق ’بعض ایسے اکاؤنٹس بھی بنائے گئے ہیں جو ہمارے رسمی اکاؤنٹس سے ملتے جلتے ہیں اور ان اکاؤنٹس کا ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
ٹی ٹی پی کے اس بیان کے بعد غازی میڈیا نامی نشریاتی گروپ نے ردعمل میں بیان جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ غازی میڈیا نیٹ ورک کو میڈیا کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے خالد خراسانی نے اپنے ساتھیوں سمیت آٹھ سال پہلے قائم کیا تھا۔
غازی میڈیا کی جانب سے جاری تمام بیانات میں جماعت الاحرار کا نام استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ تحریک طالبان پاکستان کا نام استعمال کرتے ہیں۔
بیان کے مطابق اسی نیٹ ورک کے ذریعے تمام ’جہادی تنظیموں‘ کے رسمی موقف اور بیانات جوں کی تو نشر کی جاتی ہیں جس میں عمر میڈیا کے بیانات بھی شامل ہیں۔
تاہم غازی میڈیا کے جاری بیان کے مطابق عمر میڈیا کی جانب سے غازی میڈیا کو متنازعہ بنانے کے کوشش کر کے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جو انتہائی افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔
غازی میڈیا سے جاری کردہ بیان کے مطابق ’غازی میڈیا ٹی ٹی پی کے بانی اراکین میں شامل خالد خراسانی کی میراث ہے اور اب ان کے جانشینوں کی سرپرستی میں کام کرتا ہے اور ایسا اعلامیہ جاری کرنا تنگ نظری اور چھوڑے سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔‘
بیان میں مزید بتایا گیا ہے کہ ایسے بیانات جاری کرنے والے تحریک کی وحدت کو توڑنے کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں جو متعصبانہ ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ بیان کے مطابق، ’ہم اپنا کام پہلے سے زیادہ ہمت اور توانائی کے ساتھ جاری رکھیں گے۔‘
اس سے قبل مختلف واقعات میں ایسا بھی ہوا ہے کہ ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا کی جانب سے جاری بیان میں واقعے سے اظہار لاتعلقی جبکہ غازی میڈیا سے جاری بیان میں دھماکے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
اس کی مثال رواں سال جنوری میں پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں دھماکہ تھا جس میں پولیس کے مطابق 84 نمازی جان کھو بیٹھے تھے۔
اس حملے سے ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا نے بیان جاری کرتے ہوئے اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا تھا لیکن غازی میڈیا کی جانب سے بیان جاری کرتے ہوئے دھماکے کی ذمہ داری قبول کی گئی تھی۔
کچھ مواقع پر ایسا بھی ہوا ہے کہ مختلف واقعات پر دونوں گروپوں نے الگ الگ بیانات جاری کیے ہیں اور گذشتہ روز مستونگ میں دھماکے کے حوالے سے بھی عمر اور غازی میڈیا دونوں نے بیانات جاری کرکے دھماکے سے اظہار لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
رسول داوڑ پشاور میں مقیم صحافی اور تجزیہ کار ہیں اور گذشتہ 15 سالوں سے شدت پسندی کے حوالے سے رپورٹنگ کرتے آ رہے ہیں۔ وہ ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ حکیم اللہ محسود سمیت کئی ٹی ٹی پی کمانڈروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بظاہر یہ لگ رہا ہے ٹی ٹی پی نے یہ بیان جاری کیا ہے تاکہ لوگ غازی میڈیا کو ٹی ٹی پی کا رسمی میڈیا نہ سمجھ لے۔
رسول داوڑ کے مطابق غازی میڈیا جماعت الاحرار کا غیر معروف نشریاتی گروپ ہے اور جماعت الرحرار دھڑا اب تو ٹی ٹی پی کا حصہ ہے، تاہم احرار کے سربراہ خالد خراسانی کی موت کے بعد اختلافات ضرور پیدا ہوگئے ہیں۔
رسول داوڑ نے بتایا، ’اب عمر اور غازی میڈیا کے بیانات کے بعد مجھے لگتا ہے کہ بیانات کی یہ جنگ شروع ہوگی۔‘
عبدالسید سویڈن میں مقیم پاکستان اور افغانستان میں موجود شدت پسند تنظیموں پر تحقیق کرتے ہیں اور اس حوالے سے وہ کئی تحقیقی مقالے بھی لکھ چکے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے جاری بیان میں یہ وضاحت کی ہے کہ عمر میڈیا ان کا فقط رسمی میڈیا ہے اور اس کے علاوہ تمام حامی میڈیا بشمول غازی میڈیا تنظیم کی رسمی ترجمانی نہیں کرتے۔
عبدالسید کے مطابق غازی میڈیا سابق جماعت الاحرار کے بانی عمر خالد خراسانی کے زیرقیادت کام کرتا رہا ہے مگر یہ تب بھی جماعت الاحرار کی ایک غیر رسمی میڈیا شاخ رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’عمر خالد خراسانی اپنے تنظیم و ساتھیوں سمیت ٹی ٹی پی میں دوبارہ اگست 2020 میں شامل ہوا تو غازی میڈیا نے ٹی ٹی پی کی حمایت اور پاکستانی حکومت و فورسز کے خلاف نشریات جاری رکھیں۔ البتہ اس دوران اس کے بعض ایسے بیانات اور ویڈیو سامنے آئے جو تحریک طالبان پاکستان کی نئی پالیسیوں سے متصادم تھیں۔‘
عبدالسید نے بتایا کہ شاید انہیں بیانات کی وجہ سے تنظیم کے ترجمان نے یہ وضاحت کی ہے کہ غازی میڈیا کو ان کی رسمی شاخ نہ سمجھا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے ردعمل میں غازی میڈیا نے بھی یہ تصدیق کی ہے کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کی رسمی نہیں بلکہ ایک ہمدرد میڈیا شاخ ہے جو اس کے حمایت میں نشریات کرتے ہیں۔
عبدالسید کے مطابق ’البتہ غازی میڈیا کی یہ تنقید ناقابل فہم ہے کہ محمد خراسانی کے بیان سے ان کی حیثیت کیسے متنازعہ ہوئی جبکہ یہ خود دعوی کرتے ہیں کہ وہ ایک غیر رسمی میڈیا شاخ ہے جس کا ذکر خراسانی نے بھی تازہ بیان میں کیا ہے۔ محمد خراسانی نے فقط یہ وضاحت کی ہے کہ غازی میڈیا کے موقف کو تنظیم کا رسمی موقف نہ سمجھا جائے۔‘