سینڑ فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) نامی پاکستانی تھنک ٹینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے پہلے نو ماہ میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے کم ازکم 386 ارکان جان سے گئے۔ یہ تعداد اس عرصے میں ہونے والی کُل اموات کا 36 فیصد ہے۔
سی آر ایس ایس نے اپنی یہ رپورٹ 30 ستمبر یعنی ہفتے کو اپنی ویب سائٹ پر شائع کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق سال 2023 کے ابتدائی نو ماہ میں فوج کے 137 اور پولیس کے 208 اہلکار جان سے گئے ہیں جبکہ ’اموات کی یہ تعداد گذشتہ آٹھ سال میں سب سے زیادہ‘ ہے۔ رپورٹ کے مطابق اموات کی ’یہ تعداد 2016 کی سطح سے تجاوز کر گئی ہے اور 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ’پراکسی دہشت گردی‘ کا سامنا ہے جو زیادہ تر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جاری ہے۔
کچھ اسی طرح کے بیانات 29 ستمبر کو بلوچستان کے علاقے مستونگ اور خیبر پختونخوا میں ہنگو کے مقام پر ہونے والے خود حملوں کے بعد نگران وزیر داخلہ، آرمی چیف اور بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات کی جانب سے بھی سامنے آئے ہیں جبکہ ایسے ہی بیانات ماضی میں بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے 30 ستمبر کو کوئٹہ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’داعش ہو یا ٹی ٹی پی ہمارے لیے سب ایک ہیں۔ ان سب کو ایک جگہ سے ہینڈل کیا جا رہا ہے۔‘
جبکہ 30 ستمبر کو ہی پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے مستونگ حملے کے بعد کوئٹہ کا دورہ کیا تھا اور آئی ایس پی آر کے مطابق اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس دہشت گردی کو بیرونی ریاستی سرپرستوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔‘
ساتھ ہی آرمی چیف نے یہ بھی کہا تھا کہ ’دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بلا تعطل جاری رہے گا۔‘
خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ’تشدد میں اضافہ‘
سینڑ فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ’اب تک کے ریکارڈ کے مطابق 1087 اموات تشدد کے نتیجے میں ہوئیں۔ 368 (34 فیصد) قانون شکن عناصر کی موت ہوئی جس کے بعد 333 (31 فیصد) شہریوں کی جان گئی۔‘
رپورٹ کے مطابق ’گذشتہ پانچ سالوں کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تشدد میں مسلسل اور خطرناک اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح زیادہ تشویشناک بات ان دونوں صوبوں میں تشدد سے جڑی اموات کی مجموعی شرح ہے جو گذشتہ پانچ سال میں اضافے پریشان کن رجحان کی نشاندہی کرتی ہے۔‘
’سال 2019 میں ہونے والی مجموعی اموات میں سے 72 فیصد ان دونوں صوبوں میں ہوئیں۔ یہ غیر معمولی اعداد و شمار 2023 کے پہلے نو مہینوں میں 92 فیصد تک بڑھ گئے ہیں۔‘
اسی طرح رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ’سال 2023 کی تیسری سہ ماہی میں 190 دہشت گرد حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں تقریباً 445 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 440 زخمی ہوئے۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان تشدد کے بنیادی مراکر رہے۔‘
’اس عرصے کے دوران ریکارڈ کی جانے والی تمام اموات کا تقریباً 94 فیصد اور 89 فیصد حملے (بشمول دہشت گردی کے واقعات اور سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں) انہی دو صوبوں میں ہوئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سی آر ایس ایس کنے اپنی رپورٹ میں اعداد و شمار کو مزید واضح کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’سال 2023 کی تیسری سہ ماہی میں بھی تشدد میں 57 فیصد کا خطرناک اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اموات کی مجموعی تعداد دوسری سہ ماہی میں 284 سے بڑھ کر 2023 کی تیسری سہ ماہی میں 445 ہو گئی۔‘
’اس میں بلوچستان میں 131 فیصد اور خیبرپخوتنخوا میں 28 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ گذشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں پنجاب میں تشدد میں 67 فیصد کمی دیکھی گئی جب کہ سندھ میں تشدد میں 283 فیصد اضافہ دیکھا گیا حالانکہ اموات کی تعداد بہت کم یعنی 23 تھی۔‘
رپورٹ کے مطابق سال 2023 کی تیسری سہ ماہی میں ’تشدد کی وجہ سے کُل 79 فیصد اموات دہشت گردی کا نتیجہ رہیں۔ 141 دہشت گرد حملوں میں 318 افراد جان سے گئے اور 381 شہری اور سکیورٹی اہلکار زخمی ہوئے۔ دوسری جانب سکیورٹی آپریشنز کی تعداد 49 رہی جس کے نتیجے میں 127 دہشت گرد مارے گئے اور 59 زخمی ہوئے۔‘
’اس طرح دہشت گرد حملوں، انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں اور سکیورٹی آپریشنز میں جان سے جان والے قانون شکن عناصر کی تعداد میں بہت بڑا فرق ظاہر ہوتا ہے۔‘
’تشدد سے شہریوں کو سب سے زیادہ نقصان ہوا‘
پاکستان میں پرتشدد واقعات سے ہونے والے نقصانات کے حوالے سے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’تشدد کا سب سے زیادہ نقصان اس سہ ماہی میں شہریوں کو ہوا جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ مجموعی اموات میں تقریباً 58 فیصد شہریوں کی ہوئیں۔‘
’اس کے بعد سکیورٹی اہلکاروں کو تقریباً 23 فیصد جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ قانون شکنوں کو سب سے کم نقصان اٹھانا پڑا جو اس عرصے میں ہونے والی تمام اموات کا صرف 20 فیصد ہے۔‘