کرکٹ کی دنیا کے سب سے بڑے معرکے تیرھویں ورلڈ کپ کا رنگا رنگ میلہ آج احمدآباد کے نریندر مودی سٹیڈیم میں سج چکا ہے۔
افتتاحی میچ میں روایات کے برعکس انگلینڈ اور نیوزی لینڈ آمنے سامنے ہوں گے۔ روایتی طور پر میزبان ٹیم کے میچ سے ورلڈ کپ کا آغاز ہوتا رہا ہے تاہم اب اس روایت میں تبدیلی لاتے ہوئے گذشتہ ورلڈ کپ کی دو فائنلسٹ ٹیمیں تیرھویں ورلڈ کپ کی ابتدا کر رہی ہیں۔
کرکٹ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ میں دفاعی چیمپیئن انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان مقابلے سے ایک طویل ٹورنامنٹ کا آج آغاز ہو چکا ہے جو کھیل کے مستقبل میں ایک روزہ میچوں کی جگہ کا تعین کر سکتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق عالمی ایونٹس اور منافع بخش فرنچائزز، دونوں میں ٹی 20 کرکٹ کے دھماکے سے، 50 اوورز کے کھیل کے مستقبل پر غیریقینی کے بادل چھا چکے ہیں۔
اس کے مطابق اب اس فارمیٹ کو اپنی 52 سالہ تاریخ میں اعتماد کے سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔
کرکٹ قوانین کے ذمہ دار ادارے ایم سی سی کے نئے صدر مارک نکولس نے ای ایس پی این کرک انفو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ون ڈے صرف ورلڈ کپ ہونا چاہیے۔
’ہم سمجھتے ہیں کہ اب دو طرفہ طور پر ان کا جواز پیش کرنا مشکل ہے۔ بہت سے ممالک میں ان سے میدان نہیں بھرتے۔ اور اس وقت ٹی 20 کرکٹ کی ایک طاقت ہے جو تقریباً سپرنیچرل ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’آزاد مارکیٹ میں، پیسہ اکثر جیت جاتا ہے۔ اور یہ بس کھیل کا اختتام ہے۔‘
50 اوورز کے فارمیٹ کو تیز رفتار ٹی ٹوئنٹی کے مقابلے میں بہت سست تصور کیا جاتا ہے۔
ٹورنامنٹ فارمیٹ کے تحت تمام 10 ٹیمیں ہر ٹیم کے ساتھ ایک ایک میچ کھیلیں گی۔ جس میں ٹاپ چار ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچیں گی۔ فائنل نومبر کو احمد آباد کھیلا جائے گا۔
آسٹریلیا کے سابق کپتان این چیپل کا کہنا ہے، ’ون ڈے کرکٹ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ورلڈ کپ کے سال پر منحصر کر دیا گیا ہے۔
اس سال کے ورلڈ کپ میں صرف 10 ٹیمیں ہیں لیکن اسے مکمل ہونے میں 45 دن لگیں گے۔
2024 میں امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں 20 ممالک حصہ لیں گے اور یہ ایونٹ چار ہفتوں میں ختم ہو جائے گا۔
مزید برآں، توقع ہے کہ مختصر فارمیٹ کے اس کھیل کو 2028 کے اولمپک میں شامل کرنے کے لیے آئندہ ہفتے ووٹ دیا جائے گا۔
نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن کو لگتا ہے کہ ٹی ٹوئنٹی اور 50 اوورز کی کرکٹ ساتھ ساتھ چلنے کی گنجائش ہے۔
انہوں نے کہا، ’ون ڈے ورلڈ کپ یقینی طور پر ان ٹاپ ایونٹس میں سے ایک ہے جو ہم کھیل سکتے ہیں۔‘
گذشتہ سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں اس نے جس طرح پاکستان کو فائنل میں شکست دی تھی۔ انگلینڈ جس نے ایک سال میں کرکٹ کا انداز بدل دیا ہے۔ اس سے زبردست کارکردگی کی توقع ہے۔
انگلینڈ کے کپتان جوز بٹلر کا، جو جمعرات کو احمد آباد کے ایک لاکھ 32 ہزار کی گنجائش والے نریندر مودی سٹیڈیم میں اپنی ٹیم کی قیادت کر رہے ہیں، کہنا ہے کہ ان کی ٹیم پر ٹائٹل برقرار رکھنے کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا، ’ہمیں ایسا محسوس نہیں ہو رہا ہے کہ ہم کسی چیز کا دفاع کر رہے ہیں۔ ’ہم آگے بڑھنے کے بڑے خواب اور عزائم رکھتے ہیں۔‘
انگلینڈ کی ٹیم سپر سٹار بلے باز بین سٹوکس کے بغیر کھیلے گی جو کولہے کی انجری کا شکار ہیں۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم بھی خطرناک ارادوں کے ساتھ میدان میں ہے۔ گذشتہ دو ورلڈ کپ میں رنر اپ رہنے والی نیوزی لینڈ کی ٹیم میں ولیمسن کی کمی محسوس کی جائے گی جو گھٹنے کی انجری سے صحت یاب ہو رہے ہیں۔
تجربہ کار تیز گیند باز ٹم ساؤتھی بھی ٹیم سے باہر ہیں اور وہ ابھی تک انگوٹھے کی انجری سے صحت یاب نہیں ہوسکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کپتان کین ولیمسن پہلا میچ نہیں کھیلیں گے۔ گذشتہ ورلڈ کپ کے فائنل کا سپر اوور ابھی تک شائقین نہیں بھولے ہیں۔ دونوں ٹیموں کی طاقت اور صلاحیت دیکھتے ہوئے ایک متوازن اور دلچسپ مقابلے کی توقع ہے
اس ٹورنامنٹ میں پاکستان سات سال میں پہلی بار انڈیا کا دورہ کر رہا ہے۔ بابراعظم کی ٹیم کو حیدرآباد پہنچنے سے صرف دو دن قبل ویزا ملا تھا جہاں ان کا پہلا وارم اپ میچ کھیلا گیا تھا۔
اگلے ہفتے سخت حریف انڈیا کے ساتھ ان کے بلاک بسٹر میچ پر سکیورٹی خدشات کا مطلب ہے کہ کھیل کو ایک دن آگے لایا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر نو میچ ری شیڈول ہوئے۔
بابر اعظم نے اپنے انڈیا کے پہلے دورے کے موقع پر کہا، ’مجھے لگتا ہے کہ جس طرح سے لوگ ہماری ٹیم کے بارے میں ردعمل دے رہے ہیں، ہر کوئی اس سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ ہم حیدرآباد میں ایک ہفتہ گزار رہے ہیں لہذا ایسا نہیں لگتا کہ انڈیا میں ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم اپنے گھر میں ہیں۔‘
مشکلات کے باوجود مخالف کپتان بھی دونوں حریفوں کے درمیان 14 اکتوبر کو ہونے والے میچ کا انتظار کر رہے ہیں۔
آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز نے کہا، ’مجھے نہیں لگتا کہ دنیا بھر میں ایسے بہت سے ایونٹس ہوتے ہیں جن میں آپ کو لگتا ہو کہ جب بھی انڈیا ورلڈ کپ میں پاکستان کے خلاف کھیلتا ہے تو آدھی دنیا دیکھتی ہے۔‘
آخری بار 2011 میں برصغیر میں ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس کا چمپئن انڈیا تھا۔
حال ہی میں ایشیا کپ جیتنے اور سپرسٹار بلے باز وراٹ کوہلی جیسے کھلاڑیوں کی وجہ سے تیسرا ورلڈ کپ جیتنے کے لیے انڈیا کا شمار ان ٹیموں میں ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فیورٹ ہیں۔
تاہم ڈیوڈ وارنر اور سٹیوسمتھ جیسے سینیئر بلے بازوں کی بدولت آسٹریلیا بھی چھٹا عالمی ٹائٹل جیتنے کی دوڑ میں شامل ہوگا۔
پاکستان کا آغاز حیدر آباد سے
پاکستان ٹیم انڈیا کے تاریخی شہر حیدرآباد سے اپنے سفر کا آغاز کرے گی۔ پاکستان 6 اکتوبر کو نیدرلینڈز کے خلاف اپنا پہلا گروپ میچ کھیلے گا۔ نیدر لینڈز اس ورلڈ کپ کی سب سے کمزور اور واحد نان ٹیسٹ پلئینگ ٹیم ہے۔ نیدرلینڈز اس سے قبل 1996 اور 2003 میں بھی ورلڈ کپ میں شرکت کرچکی ہے۔ وہ اپنے آخری میچ میں رن ریٹ کی بنیاد پر زمبابوے کو شکست دے کر پہنچی ہے۔
پاکستان نے اب تک نیدرلینڈز کے خلاف چھ ایک روزہ میچ کھیلے ہیں جو سارے پاکستان کی فتح پر منتج ہوئے ہیں۔
سابق ٹیسٹ کرکٹرز نے پاکستان کو سیمی فائنل کی دوڑ کا سوار قرار دیا ہے تاہم رکی پونٹنگ، سنیل گواسکر، میتھیو ہائیڈن اور شان پولاک اسے سیمی فائنل میں نہیں دیکھ رہے ہیں۔ بابر اعظم کے لیے سب کی متفقہ رائے ہے کہ وہ اس ورلڈ کپ کے سب سے زیادہ سکور کرنے والے چار اہم بلے بازوں میں ہوں گے۔ ماہرین شبمان گل، کین ولیمسن اور ویراٹ کوہلی کو بھی اس دوڑ میں دیکھ رہے ہیں۔
ماہرین ایشیا کپ میں پاکستان کی بری کارکردگی پر حیران ہیں اور انہیں خدشہ ہے کہ ورلڈ کپ میں اس کا تسلسل ہوگا۔
وقار یونس تو اس خراب کارکردگی کی وجہ گیم پلان میں کمزوری کہتے ہیں لیکن رمیز راجہ کے نزدیک دوسرے بلے بازوں کی غفلت اور لاپرواہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کھلاڑی اپنی مکمل توجہ کھیل کی طرف نہیں رکھتے ہیں جس سے کارکردگی خراب ہوتی ہے۔
سابق فاسٹ بولر اور کپتان وسیم اکرم کو شکایت ہے کہ بولرز اب دماغ استعمال نہیں کرتے ایک جیسی بولنگ کر کے اب ان کا اثر کم ہوگیا ہے۔ بولنگ میں ورائٹی بہت ضروری ہے۔ ان کے مطابق
حیدر آباد کی تاریخی حیثیت
انڈیا کا شہر حیدرآباد صدیوں سے ایک خاص اہمیت اور انفردایت کا حامل ہے۔ مغل گورنر میر قمرالدین نے اس شہر کو بسایا اور دکن صوبے کا صدر مقام بنایا تھا۔
مسلمانوں کی اکثریت کے باعث یہ شہر صدیوں تک نظام حیدرآباد کی مملکت رہا ہے۔ اپنے مخصوص فن تعمیر اور لذت کام و دہن کے لیے حیدرآباد منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ کرکٹ کے متوالے اس شہر میں بھی کرکٹ کو ہر چیز سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
ٹیم کیا ہوگی؟
پاکستان کا پہلا گروپ میچ اگرچہ آسان ہے لیکن مینجمنٹ کسی تجربہ کی کوشش نہہں کرے گی۔ وارم اپ میچ میں نیوزی لینڈ کے بلےبازوں نے جس طرح پاکستانی بالنگ کو نیزے کی نوک پر رکھا اس نے انتظامیہ کو کچھ پریشان ضرور کر دیا ہوگا۔ پرائم بولر شاہین شاہ کی غیرموجودگی میں پاکستانی اٹیک غیرموثر اور بےضرر ثابت ہوا۔
اسامہ میر سے بہت توقعات ہیں لیکن وہ ردم میں نظر نہیں آئے۔ اسامہ کی جگہ سعود شکیل کو چانس دیا جاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے وارم اپ میچ میں اپنی صلاحیتوں سے سب کو متاثر کیا۔ ان کی بروقت اننگز نے ان کی جگہ مستحکم کر دی ہے۔ امام الحق اچھی فارم میں ہیں لیکن فاسٹ بولنگ کے خلاف ان کی کمزوریاں مہنگی پڑ سکتی ہیں۔
وارم اپ میچ میں فخر زمان کی عدم شرکت نے بہت سارے سوالوں کو جنم دیا ہے۔ آؤٹ آف فارم فخر زمان کو سکواڈ میں شامل کرنے پر بہت زیادہ تنقید ہو رہی ہے۔ اب ان کا وارم اپ میچ میں ڈراپ ہونا شاید تنقید کے باعث ہے۔ شاداب خان نے پہلے وارم اپ میچ میں بولنگ نہ کرکے بھی سوالات پیدا کر دیئے تھے۔
اگرچہ ٹیم مینیجمٹ نے آرام دینے کا بہانہ بنایا تھا تاہم ایسا لگتا ہے کہ شاداب خان کی بولنگ پر شاید کپتان کو اعتماد نہیں ہے۔ دوسرے وارم اپ میچ میں وہ خاصے مہنگے ثابت ہوئے تھے۔
نیدر لینڈز کی ٹیم اگرچہ کمزور اور ناتجربہ کار ہے مگر اپ سیٹ کے لیے مشہور ہیں۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ساؤتھ افریقہ کے خلاف جیت نے انہیں خطرناک حریف بنا دیا ہے۔
پچ کیسی ہوگی؟
راجیو گاندھی سٹیڈیم زیادہ پرانا گراؤنڈ نہیں ہے۔ اس کو انٹرنیشنل معیار بہت دیر سے ملا ہے لیکن اس شہر نے معروف کرکٹرز پیدا کیے ہیں۔ ماضی میں غلام احمد، آصف اقبال اور پھر اظہر الدین، لکشمن، محمد سراج جیسے بڑے کھلاڑی پیدا کیے ہیں۔
حیدرآباد کی پچ بلے بازوں کی جنت کہی جاتی ہے۔ یہاں پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کی جیت کا مارجن زیادہ ہے۔
پچ میں باؤنس بھی ہوتا ہے جس سے ابتدائی اوورز میں بولرز کو معمولی سا فائدہ ملتا ہے۔ تاہم پچ وقت کے ساتھ ہلکی ہوتی جاتی ہے جس سے دوسرے سیشن میں سپنرز کو کچھ مدد مل سکتی ہے۔
ورلڈکپ کے لیے بی سی سی آئی نے پہلے ہی عندیہ دے دیا ہے کہ بیٹنگ کے لیے آسان پچز ہوں گی جن پر بڑے سکورز دیکھنے کو ملیں گے۔