پاکستانی ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی تیار کردہ البم ’میوزک ان کوویڈ ٹائمز‘ نے موسیقی کی دنیا کے معروف گلوبل میوزک ایوارڈ میں تین ایوارڈز اپنے نام کیے ہیں۔
ااس البم کے خالق شریف اعوان کے مطابق کلاسیکی، نیم کلاسیکی اور علاقائی موسیقی کے 38 ٹریک پر مشتمل یہ البم کرونا کی عالمی وبا کے دوران تیار کیا گیا تھا۔
شریف اعوان ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں اور گذشتہ 30 سال سے بھی زیادہ کے عرصے سے راگ و راگنی سے اپنی محبت نبھا رہے ہیں۔
شریف اعوان صاحب کی تہذیب فاؤنڈیشن کے تحت برصغیر کی کلاسیکی موسیقی کو ’انڈس راگ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ کئی عالمی ایوارڈز اس سے پہلے بھی جیت چکے ہیں۔
یہ البم رواں برس اپریل میں ریلیز ہوا تھا، اور اس کے بعد ہی یہ گلوبل میوزک ایوارڈز میں نامزد ہوا جہاں اسے تین ایوارڈز ملے۔
یہ خبر ملتے ہیں ہم وقت لے کر شریف اعوان کے گھر پہنچے اور انٹرویو کی درخواست کی جو بخوشی قبول کرلی گئی۔
شریف اعوان سے میرا پہلا سوال یہی تھا کہ یہ کارنامہ کب اور کیسے انجام دیا کیونکہ ہمیں تو معلوم بھی ایوارڈز ملنے کے بعد ہوا ہے۔
شریف اعوان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’کرونا کی عالمی وبا کے دن، بہت مشکل دن تھے۔ اس دوران جو ہمارے فنکار تھے انہوں نے اپنا کام نہیں چھوڑا، یہ انہیں دنوں کی موسیقی ہے جسے بنایا، ترتیب دیا اور پیش کیا جو کافی مشکل کام تھا۔
’کیونکہ یہ کلاسیکی راگ ہے اس لیے اس کی پروڈکشن عام موسیقی کی پروڈکشن سے بالکل مختلف ہوتی ہے، اس میں فنکار ہی سارا کام کرتا ہے، پروڈیوسر صرف نوک پلک ہی سنوارتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی وہ گلوبل میوزک ایوارڈ اور انڈپینڈنٹ میوزک ایوارڈ جیت چکے ہیں۔
ایوارڈز کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’گلوبل میوزک ایوارڈز میں کافی ساری کیٹیگریز ہوتی ہیں جن میں سے چند میں ہم نے اپنی نامزدگی بھیجی تھی، اور ان میں سے تین شعبہ جات یعنی بہترین البم، بہترین پروڈیوسر اور بہترین تخلیق پر اعزاز ملے ہیں۔‘
شریف اعوان نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’گلوبل میوزک ایوارڈز، گریمی ایوارڈز سے اس طرح مختلف ہے کہ یہ ایوارڈز مقبولیت کا پیمانہ نہیں بناتے بلکہ ان کے مطابق ان کا پیمانہ صرف فن کا معیار ہے، اور ججز میں بہت بڑے بڑے نام ہیں جو کئی گریمی ایوارڈز بھی جیت چکے ہیں۔ ان ایوارڈز کا نظام بہت شفاف ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’برصغیر پاک و ہند میں جو کلاسیکی موسیقی کی روایت ہے وہ دنیا کی معتبر ترین روایتوں میں شامل ہے، اسی میں ہم غزل کو شامل کرتے ہیں اور اسی میں ہم علاقائی موسیقی کو شامل کرتے ہیں، اس ایک مخصوص مارکیٹ کے لیے ہے مگر اس کا کمرشل موسیقی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔‘
پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کے معدوم ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مسائل تو ساری دنیا ہی میں ہے مگر اصل میں ہمارے فنکاروں کو سراہنا چاہیے جنہوں نے اسے تمام تر مشکلات کے باوجود زندہ رکھا ہوا ہے اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اس انسانی ورثہ کو زندہ رکھیں بلکہ فروغ بھی دیں۔‘
شریف اعوان نے اپنی البم کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ’اس کے کچھ ٹریک بھارت میں ریکارڈ کیے گئے ہیں، جبکہ کچھ لندن اور جرمنی میں بھی ریکارڈ ہوئے ہیں۔ میں اسے پاکستانی یا بھارتی موسیقی نہیں سمجھتا، یہ ہمارا مشترکہ ثقافتی ورثہ ہے۔‘
ان کے مطابق ’یہ البم پاکستان کے بہت سے بک سٹورز پر موجود ہے جہاں اس کا کتابچہ بھی ہے اور گانے بھی ہیں، لیکن پورا البم یوٹیوب پر موجود ہے جسے مونیٹائز بھی نہیں کیا گیا ہے تاکہ لوگ اسے آسانی سے دیکھ سکیں۔‘