شامی حکومت کے زیر انتظام حمص شہر میں ایک فوجی اکیڈمی پر جمعرات کو ہونے والے ڈرون حملے میں کم از کم 14 عام شہریوں سمیت 100 سے زیادہ لوگ جان سے گئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جنگ زدہ ملک میں وسیع نیٹ ورک کے ساتھ کام کرنے والے انسانی حقوق کے برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 100 سے زیادہ اموات میں سے نصف فوجی گریجویٹ اور 14 عام شہری بھی شامل ہیں۔ حملے میں 125 سے زیادہ دیگر زخمی ہوئے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جنگ پر نظر رکھنے والے ایک نگران اور سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ شامی وزیر دفاع کے گریجویشن کی تقریب سے نکلنے کے چند منٹ بعد ہی ہتھیاروں سے لیس ڈرون طیاروں نے اس مقام پر بمباری کی۔
شام کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ ’دہشت گرد‘ گروپوں نے حملے کے لیے ڈرونز کا استعمال کیا۔ بیان میں کسی تنظیم کا نام نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی گروپ نے فوری طور پر حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
شام کے سکیورٹی ذرائع اور حزب اختلاف کے گروپوں کے خلاف دمشق حکومت کی حمایت کرنے والے علاقائی اتحاد کے سکیورٹی ذرائع کے مطابق شام کے وزیر دفاع نے گریجویشن کی تقریب میں شرکت کی لیکن حملے سے چند منٹ قبل وہاں سے چلے گئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک شامی شہری جنہوں نے تقریب کے لیے اکیڈمی میں سجاوٹ میں مدد کی، نے بتایا کہ ’تقریب کے بعد لوگ کھلے مقام پر چلے گئے اور انہیں دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا گیا۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کہاں سے آیا تھا اور لاشیں زمین پر بکھری پڑی تھیں۔‘
واٹس ایپ کے ذریعے روئٹرز کے ساتھ شیئر کی جانے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ایک بڑے صحن میں خون میں لت پت پڑے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ وردی میں اور کچھ سویلین کپڑوں میں ملبوس ہیں۔
شام کا تنازع 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف مظاہروں سے شروع ہوا جو ایک مکمل جنگ کی شکل اختیار کر گیا جس میں لاکھوں افراد جان گنوا اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
شام کی فوج اس لڑائی کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہے اور اسے روس اور ایران کے ساتھ ساتھ لبنان، عراق اور دیگر ممالک کے تہران کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کی فوجی مدد پر بہت زیادہ انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔