امریکہ نے شام میں فضائی حملے چھپائے: اخبار

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ 2019 میں شام میں داعش کے خلاف جنگ میں ایک امریکی فضائی حملے میں 64 شہریوں کی ہلاکت کو چھپایا گیا، جو ایک ممکنہ جنگی جرم ہے۔

امریکی فضائیہ کا ایف 15 ای بمبار طیارہ 12 نومبر 2015 کو برطانیہ سے مشرق وسطیٰ میں داعش کے خلاف آپریشن انہرینٹ ریزالو میں حصہ   لینے کے لیے اڑ رہا ہے۔ امریکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ای طیارے نے مارچ 2018 میں شام میں شہریوں کے ایک مجمع پر بم گرائے (اے ایف پی) 

امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے ہفتے کو اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ داعش کے خلاف جنگ کے دوران امریکی فوج نے 2019 میں شام میں کیے گئے ان فضائی حملوں کو چھپائے رکھا جن میں 64 تک خواتین اور بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حملے ممکنہ طور پر جنگی جرم ہو سکتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اخباری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام کے قصبے باغوز کے قریب یکے بعد دیگرے فضائی حملوں کا حکم امریکہ کے خفیہ خصوصی آپریشنز یونٹ نے دیا۔ اس یونٹ کو شام میں زمینی کارروائی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ اخبار کا کہنا ہے کہ شام میں فضائی کارروائیوں کی نگرانی کرنے والی امریکی مرکزی کمان نے اس ہفتے پہلی بار فضائی حملوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں جائز قرار دیا ہے۔

مرکزی کمان نے ہفتے کو ایک بیان میں اخبار کو حملوں کے بارے میں دی گئی تفصیل دہراتے ہوئے کہا کہ فضائی حملوں میں 80 لوگ مارے گئے جن میں داعش کے 16 جنگجو اور چار شہری بھی شامل ہیں۔ امریکی فوج کا کہنا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ ہلاک ہونے والے دوسرے 60 لوگ عام شہری تھے، کیونکہ خواتین اور بچے بھی جنگجو ہو سکتے تھے۔

ہفتے کے بیان میں فوج نے کہا کہ فضائی حملے متناسب ’جائز دفاع‘ تھے یہ کہ ’شہریوں کی عدم موجودگی یقینی بنانے کے لیے مناسب اقدامات کیے گئے۔‘ 

امریکی فوج کے بیان کے مطابق: ’ہمیں معصوم جانوں کے ضیاع سے نفرت ہے اور اسے روکنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جاتے ہیں۔ مذکورہ معاملے میں ہم نے خود رپورٹ دی اور اپنے شواہد کے مطابق حملے کی تحقیقات کی اور غیر ارادی طور پر ہونے والے جانی نقصان کی مکمل ذمہ داری لی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان میں کہا گیا کہ امریکی فضائی حملوں کے نتیجے میں 60 ہلاکتوں میں شہریوں کی تعداد کا تعین نہیں کیا جا سکا جس کی وجہ یہ ہے کہ واقعات کی ویڈیو میں ’متعدد مسلح خواتین اور کم از کم ایک مسلح بچہ دیکھا گیا۔‘

بیان میں مزید کہا گیا کہ ہلاک ہونے والے 60 افراد میں سے اکثر ممکنہ طور پر جنگجو ہو سکتے ہیں۔

امریکی مرکزی کمان کا کہنا ہے کہ فضائی حملے اس وقت کیے گئے جب شامی ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) شدید گولہ باری کی زد میں تھیں اور انہیں شکست کا خطرہ تھا۔ ایس ڈی ایف نے اطلاع دی تھی کہ علاقے میں شہری موجود نہیں ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق امریکی محکمہ دفاع کے انسپکٹر جنرل نے 18 مارچ 2019 کے واقعے کی تحقیقات کی لیکن ان کی رپورٹ میں بالآخر بمباری کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ واقعے کی جامع اور آزادانہ تحقیقات کبھی نہیں ہوئی۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اس کی رپورٹ کی بنیاد خفیہ دستاویزات، خفیہ رپورٹس کی تفصیلات سمیت حملوں میں براہ راست ملوث عملے کے انٹرویوز پر مبنی ہے۔

اخبار کے مطابق اس وقت آپریشنز سینٹر میں موجود امریکی ایئرفورس کے وکیل کا ماننا تھا کہ امریکی فضائی حملے ممکنہ طور پر جنگی جرائم ہو سکتے ہیں۔ کوئی کارروائی نہ ہونے پر وکیل نے بعد میں محکمہ دفاع کے انسپکٹر جنرل اور سینٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کو چوکس کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا