معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان غیرقانونی افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کے اپنے فیصلے پر عمل درآمد کرتی ہے تو اس کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان نے غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کو، جن میں افغان شہری بھی شامل ہیں، یکم نومبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دے رکھا ہے۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے منگل تین اکتوبر 2023 کو ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ ’اگر پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم افراد یکم نومبر تک اپنے ملک نہیں جاتے تو ہمارے تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں ڈی پورٹ کریں گے۔‘
افغانستان نے پاکستان کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ افغانستان کے قائم مقام وزیرِ دفاع ملا یعقوب نے جمعرات پانچ اکتوبر 2023 کو ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ ’پاکستانی حکومت کی جانب سے افغان شہریوں کے بارے میں جو فیصلہ کیا گیا کہ وہ یکم نومبر کو ملک سے چلے جائیں، یہ فیصلہ غیرعادلانہ اور ناانصافی پر مبنی ہے۔‘
تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان دفترِ خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے واضح کیا ہے کہ غیر قانونی تارکین قطن کے خلاف ’اس کارروائی کا 14 لاکھ افغان پناہ گزینوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، جن کی پاکستان اپنی مخدوش معاشی صورت حال کے باوجود کئی دہائیوں سے مہمان نوازی کر رہا ہے۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے پاکستان کے فیصلے کو ملکی معشیت کے لیے ’گیم چینجر‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر حکومت پاکستان اس اعلان پر عمل کرتے ہوئے پناہ گزینوں کو واپس بھیجتی ہے تو اس سے نہ صرف پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری اور ڈالر کی قیمت میں کمی کے ساتھ غیر قانونی سمگلنگ میں کمی آئے گی۔‘
انہوں نے کہا: ’پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان باشندے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بغیر ویزا، ٹکٹ، پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویز کے سفر کرتے ہیں۔
’یہ لوگ پاکستان سے امریکی ڈالر غیر قانونی طور پر افغانستان لے جاتے ہیں، جس سے پاکستان میں ڈالر کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ابھی افغان بارڈر پر سختی کرنے اور غیر قانونی افغان شہریوں کی واپسی کی خبروں سے ڈالر کی بلیک مارکیٹ میں 52 روپے سے 55 روپے تک قیمت کم ہوئی ہے جب کہ انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 25 روپے تک کم ہوئی ہے۔ اگر اس فیصلے پر مکمل عمل کیا جائے تو ڈالر کی قیمت میں مزید کمی آئے گی۔ ‘
ظفر پراچہ کا مزید کہنا تھا کہ یہ افراد افغانستان سے واپسی پر ’غیرقانونی اشیا سمگل کرتے‘ ہیں، جس سے پاکستان کی معشیت کو نقصان پہنچتا ہے۔
’جب سفر کو ویزا، پاسپورٹ سے منسوب کیا جائے گا تو 10 فیصد ہی لوگ آسکیں گے اور وہ بھی قانونی طور پر آئیں گے۔ جس سے ڈالر کی سمگلنگ پر قابو پایا جاسکتا ہے۔‘
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے ترجمان عامر حسن نے اس حوالے سے کہا: ’کسی بھی افغان شہری کا کاروبار کے سی سی آئی یا کسی اور فورم کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں۔ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ افغان شہریوں کے وطن واپسی کا مقامی کاروبار پر کوئی اثر ہوگا۔
’عام طور پر افغان شہری کراچی میں رجسٹرڈ کاروبار سے منسلک نہیں۔ اس لیے غیررجسٹرڈ کاروبار کے بند ہونے کے اثرات پر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔‘
افغان امور کے ماہر وکیل الرحمٰن کے مطابق کراچی میں افغان شہری پشتون اکثریتی علاقوں میں مقیم ہیں اور ان کے وطن واپسی پر ان کا کاروبار مقامی پشتونوں کو منتقل ہوجائے گا۔
’سندھ میں خاص طور پر کراچی میں افغان شہریوں کی آبادی پشتون علاقوں میں مقیم ہے، جہاں وہ ڈمپر، لوڈر، ایکسکویٹر سمیت بھاری ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ سے منسلک دیگر کاروبار جیسا کہ ٹائر، سپیئر پارٹس اور کپڑے کا کاروبار بھی افغان افراد کرتے ہیں۔ اگر بڑے پیمانے پر افغان شہریوں کی واپسی ہوتی ہے تو یہ کاروبار اسی علاقے کے پشتونوں کو مل جائے گا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ خیال کیا جارہا ہے کہ اسلام آباد میں افغان شہریوں کے بڑے پیمانے پر آباد ہونے کے بعد گھروں کے کرایے میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ان کے واپس جانے کے بعد اسلام آباد میں کرایوں میں کمی آئے گی، تو کراچی میں بھی کرایوں میں کمی آئے گی؟
وکیل الرحمٰن نے کہا: ’کراچی میں کچی آبادیوں کی بہتات ہے جہاں گھروں کے کرایے زیادہ نہیں ہوتے، افغان شہری مخصوص کیمپوں کے علاوہ کچی آبادیوں میں رہتے ہیں اور ان کے رہنے سے کرایوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس لیے ان کے جانے سے کرایوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘
وکیل الرحمٰن کے مطابق بھاری ٹرانسپورٹ پر لوڈنگ اور ان لوڈنگ کا کام بھی افغان شہری کرتے ہیں۔
’کوئی عمارت گرانی ہو یا نئی تعمیر کرانی ہو تو افغان شہری سستی لیبر کے طور پر کام کرتے ہیں اور ان کی واپسی کے بعد بھاری ٹرانسپورٹ کی لوڈنگ، ان لوڈنگ اور عمارت کی مزدوری کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوگا۔‘
کراچی کے پشتون اکثریت والے علاقے پاپوش نگر کے رہائشی سماجی رہنما زریاب آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’کراچی میں افغانی کچرہ چننے، کاغذ، گتا اور کوڑے سے ری سائیکل والی اشیا اکٹھی کرنے کے ساتھ سستی لیبر کے طور پر کام کرتے ہیں۔
’اگر افغان شہری واپس جاتے ہیں تو کراچی میں عام لیبر کے ریٹ 300 روپے سے 1000 روپے دہاڑی کی مد میں ہوسکتے ہیں۔‘