پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم تمام غیر ملکی شہریوں کو 31 اکتوبر تک ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اور یکم نومبر سے ایسے افراد کی املاک ضبط کر لی جائیں گی۔
اس حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں مقیم غیر قانونی پناہ گزینوں کو رہائش یا سہولت فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کی جائے گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور پاکستان افغان تعلقات میں کشیدگی کے پس منظر میں کیا گیا ہے۔
نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا مؤقف ہے کہ جنوری 2023 سے اب تک ملک کے مختلف حصوں میں 24 خود کش حملے ہوئے جن میں سے 14میں افغان شہری ملوث پائے گئے۔
پاکستان میں کتنے افغان شہری مقیم ہیں، ان میں سے قانونی کتنے ہیں اور غیر قانونی کتنے؟ کیا انہیں نکالنا اتنا ہی آسان ہے، جتنا حکومت سمجھتی ہے؟ اس تحریر میں ان ہی عوامل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ڈیورنڈ لائن اور غیر قانونی نقل و حمل
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد، جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے، کی لمبائی 2640 کلومیٹر ہے جو 1893میں تاج برطانیہ کے ایک آفیسر سر مورتمر ڈیورنڈ اور افغان بادشاہ رحمان خان کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔
پاکستان بننے کے بعد سے کسی بھی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ یہاں سے نقل و حرکت با آسانی ہوتی رہی ہے۔
جنوری 2022 تک پاکستان نے ڈیورنڈ لائن کے 94 فیصد حصے پر باڑ لگا دی تھی لیکن طالبان کی حکومت بننے کے بعد سے اس باڑ کو کئی جگہ سے نشانہ بنایا گیا اور اب یہاں دونوں ممالک کی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں معمول بن چکی ہیں۔
پاکستان کا موقف ہے کہ باڑ توڑ کر دہشت گرد داخل ہو رہے ہیں جبکہ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ یہ ان قبائل کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ہے جو ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف آباد ہیں اور ان کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں۔
کابل میں موجود افغان اینالسٹ نیٹ ورک کے مطابق پاکستان اور افغانستان کی سرحد کو روزانہ کی بنیادوں پر تجارت، رشتہ داریوں، تعلیم، کام کاج اور علاج معالجے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ دہشت گرد بھی اسی آڑ میں آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں۔
ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف بلوچ اور پشتون قبائل آباد ہیں، جن کی آڑ میں باقی افغانوں کو بھی آنے جانے کا موقع مل جاتا ہے۔ اب باڑ لگانے کے بعد جگہ جگہ سے آنا جانا مشکل ہو گیا ہے اور صرف ان ہی جگہوں سے داخلہ ہوا جا سکتا ہے، جہاں دستاویزات کی سخت پڑتال کے بغیر آنا ممکن نہیں۔
افغان پناہ گزینوں کا طالبان سے کیا تعلق ہے؟
یورپی یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان پناہ گزینوں اور افغانستان میں موجود شدت پسندوں کی تینوں نسلوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔
جب 1978 میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں اور افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو پہلے سال ہی چار لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوئے، جن کی تعداد اگلے 10 سالوں میں بڑھ کر 40 سے 50 لاکھ تک پہنچ گئی۔
پاکستان، افغانستان میں برسر پیکار سات گروہوں کی مبینہ طور پر مدد کر رہا تھا۔ انہی گروہوں کو پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن میں کردار دیا گیا، گویا جنہیں اس وقت کے مجاہدین کہتے تھے، انہیں ہی ’مہاجر‘ کا درجہ دے کر کیمپ میں داخل کیا جاتا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان مخالف افغان عناصر کو ملک میں داخلے سے روکا جائے۔
چنانچہ شدت پسندوں کی پہلی سے لے کر تیسری نسل تک کا تعلق پاکستان میں ان کیمپوں سے کسی نہ کسی صورت جڑا ہوا ہے۔
وہ یا تو ان کیمپوں میں پلے بڑھے یا پھر انہیں سرکاری چھتری تلے ان مدارس میں تعلیم و تربیت دی گئی، جن کو ’افغان جہاد‘ میں کردار دیا گیا تھا۔ اب اگر پاکستان یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اسے غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنا ہے تو یہ افغانستان میں برسر اقتدار طالبان گروہوں کے بعض رشتہ داروں کو پاکستان میں نشانہ بنانا ہے۔
یو این ایچ سی آر کیا کہتا ہے؟
اقوام متحدہ کےادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) نے اس وقت ہی پاکستان میں اپنا دفتر قائم کر لیا تھا جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں اور افغان پناہ گزین دھڑا دھڑ پاکستان داخل ہونے لگے لیکن حکومت پاکستان نے پناہ گزینوں کا کنٹرول اپنے پاس ہی رکھا کیونکہ پاکستان نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ صرف انہی پناہ گزینوں کو قبول کرے گا جن کا تعلق ان سات افغان سیاسی جماعتوں سے ہو گا، جنہیں اس نے پاکستان میں داخلے اور قیام کی اجازت دی ہوئی ہے۔
اسی پس منظر میں ہر مہاجر کی جانچ پڑتال کی جاتی تھی۔ 2006 تک پاکستان میں مقیم کسی افغان باشندے کے پاس کسی قسم کی کوئی قانونی دستاویزات نہیں ہوتی تھیں۔ پھر اسی سال پاکستان نے فیصلہ کیا کہ وہ یو این ایچ سی آر کے ساتھ مل کر پاکستان میں رہنے والے افغان پناہ گزینوں کو POR کارڈز (پروف آف رجسٹریشن) جاری کرے گا اور صرف وہی پناہ گزین تصور ہوں گے جن کے پاس یہ کارڈ ہوگا۔
اس سے پہلے پاکستان میں رہنے والے افغان شہریوں کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک وہ تھے جن کے پاس افغان شناختی کارڈ تھے، دوسرے جن کے پاس کوئی دستاویز نہیں اور تیسرے وہ جن کے پاس ویزہ موجود تھا۔
2017 میں پاکستان نے غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کو افغان حکومت اور آئی او ایم کے تعاون سے افغان سٹیزن کارڈ بنا کر دینے شروع کیے اور 2022 تک جن افغان شہریوں کے پاس پی او آر کارڈز تھے، ان کی تعداد 14 لاکھ تھی۔
جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈز تھے ان کی تعداد آٹھ لاکھ 40 ہزار جبکہ جن کے پاس کسی قسم کی کوئی شناخت نہیں تھی، ان کی تعداد سات لاکھ 75 ہزار تھی۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں رہنے والے کل افغان شہریوں کی تعداد اب بھی 30 لاکھ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یو این ایچ سی آر کے مطابق 31 اگست 2021 تک سب سے زیادہ رجسٹرڈ افغان شہری خیبرپختونخوا میں رہتے ہیں، جن کی تعداد 8,34,381 ہے جو کل تعداد کا 58 فیصد ہیں۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان میں یہ تعداد 3,26,932 ہے، جو کل کا 23 فیصد ہے۔
ان میں سے صرف 31 فیصد افغان پناہ گزین مخصوص کیمپوں یا علاقوں میں رہتے ہیں۔
1990 میں ان کی تعداد 300 تھی جو اب 54 رہ گئی ہے، باقی 69 فیصد افغان پاکستان بھر میں شہروں میں آزادانہ طور پر رہ رہے ہیں۔ اب کیمپوں میں صرف وہی افغان رہتے ہیں جو کرائے پر رہنے کی سکت نہیں رکھتے۔
کابل میں طالبان حکومت آنے کے بعد پناہ گزینوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے اور یو این ایچ سی آر کے مطابق جنوری 2021 سے فروری 2022 تک 1,17,547 نئے افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
پاکستان کے قوانین کیا کہتے ہیں؟
پاکستان اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق کنونشن، جو 28 جولائی 1951 میں منظور ہوا تھا، اس کا دستخط کنندہ نہیں اور نہ ہی سٹیٹس آف ریفیوجیز1967 پر اس نے دستخط کر رکھے ہیں۔
اس حوالے سے جو افغان شہری پاکستان آتے ہیں وہ پاکستان میں پناہ گزین کا درجہ اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک پاکستان خود اجازت نہ دے۔ اس نسبت سے پاکستان میں قومی سطح پر کوئی قانون بھی نہیں۔
اس حوالے سے ایک ہی ضابطہ فارنرز آرڈر آف 1951 موجود ہے، جو کہ غیرملکیوں کی آمد و رفت کا احاطہ کرتا ہے، جس کے مطابق غیر ملکی جن کے پاس کوئی دستاویز نہ ہو چاہے وہ پناہ گزین ہوں یا پناہ کے متمنی انہیں گرفتار، قید یا ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
تاہم 1997 میں جاری ہونے والے ایک سرکلر کے تحت افغان پناہ گزینوں کو اس ضابطے سے استثنیٰ دیا گیا۔
فروری2001 میں حکومت پاکستان نے ایک اور سرکلر جاری کیا جس کے مطابق فارنرز ایکٹ کے زمرے میں وہ تمام افغان شہری آئیں گے، جن کے پاس کوئی مصدقہ دستاویز ویزہ، پاسپورٹ، پاکستان کا یا یو این ایچ سی آر کا کارڈ نہیں ہوگا اور ایسے افراد کو فارنرز ایکٹ کے سیکشن 14اے او ربی کے تحت گرفتار اور ملک بدر کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں 1951 کے فارنرز ایکٹ میں ترمیم کر کے نیشنل ر یفیو جی لا 2017 میں لانے کی کوشش کی گئی مگر یہ کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ خدشہ تھا کہ اس سے قومی سلامتی متاثر ہو سکتی ہے اور نہ صرف افغان شہریوں کے داخلے کا راستہ ہموار ہو جائے گا بلکہ دیگر ملکوں سے بھی پناہ گزینوں کا سیلاب آ جائے گا۔
پاکستانی شہریت کا ایکٹ مجریہ 1951 پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان بچوں کو بھی پاکستانی شہریت کا حق نہیں دیتا۔ افغان مرد اور خواتین جنہوں نے پاکستانی مرد و خواتین سے شادیاں کر رکھی ہیں ان کے لیے بھی قانون اتنا گنجلک ہے کہ ان کے لیے پاکستانی شہریت کا حصول آسان نہیں۔
عمران خان نے اپنی وزارت عظمی ٰ کے دور میں ستمبر 2019 میں کراچی میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ افغان بچے جو پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں انہیں پاکستانی شہریت دی جائے گی مگر بعد میں وہ ایسا کر نہیں سکے۔
افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کی کتنی کوششیں ہو چکی ہیں؟
2001 میں افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد افغان بڑی تعداد میں واپس جانا شروع ہوئے۔ صرف 2002 میں 15 لاکھ افغان شہری واپس گئے۔ یہ سلسلہ 2014 تک جاری رہا لیکن پھر اس میں تعطل آ گیا۔
پاکستان میں دہشت گردی، جرائم اور سمگلنگ کی روک تھام کے لیے افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ پہلے بھی کئی بار سامنے آ چکا ہے۔
فروری 2017 میں پاکستانی کابینہ نے افغان شہریوں کی واپسی کے لیے ایک جامع منصوبے کا اعلان کیا، جس کے تحت افغان سرحد پر امیگریشن قوانین پر عمل درآمد کو سختی سے یقینی بنایا جانا تھا اور وہ افغان جو واپس جا رہے ہیں، ان سے POR کارڈز لیے جانے تھے تاکہ اگر وہ واپس آنا چاہیں تو ویزہ لے کر ہی آسکیں۔
16 دسمبر 2019 کو یو این ایچ سی آر، افغانستان، پاکستان اور ایران نے مل کر پناہ گزینوں کی واپسی اور آباد کاری کے ایک جامع منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا لیکن طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد یہ کوششیں رک گئیں بلکہ مزید افغان پناہ گزینوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی تعداد تقریباً آٹھ لاکھ ہے، جن کے پاس کسی قسم کی کوئی قانونی دستاویز موجود نہیں۔
ان لوگوں کو ملک بدر کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا بالخصوص پاکستان کے اپنے انتظامی اور قانونی ڈھانچہ کے لیے بھی ایک بڑا سوال ہے کہ وہ ایسا کر بھی سکتا ہے یا نہیں۔ دوسری طرف اس عمل سے پاکستان اور طالبان کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔