دہلی کے چاندنی چوک پر زخمی مزدوروں کے رضاکار مسیحا

نئی دہلی کے چاندنی چوک پر ہر روز بیسیوں زخمی مزدوروں کی مرہم پٹی کرنے کے لیے رضاکار اکٹھے ہوتے ہیں۔

انڈیا کے شہر دہلی کے شاہجہانی لال قلعے کے سامنے چاندنی چوک پر صبح ہوتے ہی ہلچل شروع ہو جاتی ہے۔ صبح کے وقت یہاں ایک نظارہ انسانیت کا بھی دکھتا ہے۔ جہاں کچھ ڈاکٹرز اور رضاکار مزدوروں اور غریبوں کے خراب ہوتے زخموں کی صفائی کرتے اور پٹیاں باندھتے نظر آتے ہیں۔

اس علاقے کی بالکل سیدھ میں شاہی فتح پوری مسجد، وسط میں بڑا سیس گنج کا گرودوارہ اور داخل ہوتے ہی ایک عالیشان مندر ہے۔ رکشہ والوں اور مزدوروں کی ایک بھیڑ فٹ پاتھ پر دوڑتے بھاگتے دکھائی دیتی ہے۔

یہ ڈاکٹرز اوررضاکار انسانیت کے ناطے ہر روز یہاں آتے ہیں اور بے گھر اور غریبوں کے زخموں کا مداوا کرتے ہیں۔

نریش جن کی عمر 45 سال ہے، کچھ روز قبل مال بردار رکشہ کھینچتے ہوئے زخمی ہو گئے تھے۔  انہیں دائیں انگوٹھے میں گہرا زخم آیا تھا۔

دیہاڑی دار مزدور ہونے کی وجہ سے ان کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں اور زخمی ہونے کی وجہ سے پیسہ کمانے سے محروم بھی ہیں۔

وہ بھی زخمیوں کے قطار میں کھڑے ہوکر اپنا علاج کروا رہےتھے۔

نریش نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ زخم کے علاج کے لیے وہ صبح اٹھ کر چاندنی چوک پہنچے تا کہ ان کی پٹی ہو سکے۔

نریش نے مزید بتایا کہ ’میرے پاس ہسپتال جانے کی سقت نہیں ہے اور سرکاری ہسپتال میں بھی اچھا علاج نہیں ملتا اور دن بھر انتظار الگ سے کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ یہاں نہ صرف مفت میں پٹی ہوجاتی ہے بلکہ انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا۔‘

نریش نے بتایا کہ ’ایک دن لوہے کی چادر لے کر جا رہا تھا۔ ایک چادر کو اتار رہا تھا تو دوسری چادر سرک کر میری انگلیوں میں گھس گئی اور میرا ہاتھ کٹ گیا۔ اب علاج ہو رہا ہے۔ میرا زخم ٹھیک ہو جائے گا تو میں اپنے کام میں لگ جاؤں گا۔‘

لکشمن داس جن کے پیروں پر تین سال سے زخم ہے۔ وہ سرکاری ہسپتال گئے تھے جہاں ڈاکٹروں نے ان کو پیر کٹوانے کی صلاح دی۔ اس پر وہ وہاں سے واپس آگئے۔ اب یہاں آکر صرف مرہم پٹی کرواتے ہیں۔

ڈاکٹر طاہر نے انہیں سمجھایا کہ وہ ہسپتال میں رہ کر علاج کروائیں۔

لکشمن داس نے بتایا کہ ’میں کسی ہسپتال تک جا نہیں سکتا اور پیسے بھی بہت لگتے ہیں۔ یہاں سب فٹ پاتھ پر رہنے والے لوگ آتے ہیں۔ کوئی کہیں سوتا تو کوئی کہیں۔ کسی کے پاس پیسہ نہیں ہے۔‘

چاندنی چوک میں ’جھاڑو والے‘ کے نام سے مشہور سردار ترلوچن سنگھ نے 1989 میں یہ کام شروع کیا تھا اور اب ان کے دو بیٹے کنول جیت سنگھ اور برگیڈیر ریٹائرڈ پرمجیت سنگھ پانیسر نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔

ان کے اس کام میں ڈاکٹر طاہر بھی شامل ہیں جو ہر روز اپنی اہلیہ کے ساتھ آتے ہیں اور زخموں کی مرہم پٹی میں بنیادی کردار نبھاتے ہیں۔

کنول جیت سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم لوگ قریب 30 یا 40 رضاکاروں کے ساتھ یہاں روز صبح آتے ہیں۔ لنگر بانٹتے ہیں اور پٹی کرتے ہیں۔ یہ سارے لوگ مزدور ہیں جو دیگر ریاستوں سے نقل مکانی کرکے یہاں آئے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ ایسے بھی ہیں جو یہیں رہائش پذیر ہیں اور دوکانوں میں کام کرتے ہیں۔ ان کے پیروں پر زخم ہو جاتا ہے تو ہم ہی علاج کرتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’دہلی میں بے گھر لوگوں کی تعداد زیادہ ہے کیوں کہ یہ دارالحکومت ہے۔ ایک آدمی ٹکٹ بناتا ہے اور دہلی پہنچ جاتا ہے۔ تین چار مہینے کام کرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اس کے پاس گھر نہیں ہے، رسوئی نہیں ہے۔ نہانے کی جگہ نہیں ہے۔ وہ لوگ کام کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں اور ان کو جوتے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے چوٹ لگ جاتی ہے۔ چونکہ زیادہ تر لوگوں کا کام مزدوری اور محنت کا ہے۔ کوئی رکشتہ چلاتا ہے، کوئی ریڑھی چلاتا ہے۔ وہ دھکا لگاتے ہیں، کبھی کبھی اس کام کے دوران پیر پھسل جاتا ہے یا پیر پر کوئی چوٹ لگ گئی کسی چیز سے یا کانچ سے۔ اس کی وجہ سے زخم ہوجاتا ہے اور اگر اس کا علاج نہیں کیا گیا تو اس پر مکھی بیٹھے گی اور کیڑا لگ جاتا ہے۔‘

سنگھ کے مطابق ’چونکہ یہ لوگ غریب ہوتے ہیں اور ہسپتال کا خرچ نہیں اٹھا سکتے۔ اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ شروعاتی طبی مدد دے کر ان کے زخم کو صحیح کیا جائے۔

ان کی ٹیم میں شامل ڈاکٹر طاہر نے بتایا کہ ’یہاں پر شکلا جی، سنجیو جی سب لوگ اس گروپ کو چلاتے ہیں۔ یہاں پر مذہب سے پرے ہو کر سب طرح کے لوگ آتے ہیں اور مجبور لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔‘

’ایسے لوگ جو فٹ پاتھ پر رہتے ہیں، گھروں سے محروم ہیں، بھیک مانگتے ہیں۔ جن کا نہ کھانے کا ٹھکانہ ہے اور انہیں چوٹیں لگ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی ہم ان کو فرسٹ ایڈ دے کر ہسپتال کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے لیے ہسپتال رسائی سے باہر ہوتے ہیں اور جلدی میں دستیاب نہیں ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہم یہاں سات بجے سے شروع کرتے ہیں اور تقریباً نو بجے تک خدمات دیتے ہیں۔ میں مریضوں کو دوائیں دیتا ہوں۔ انجیکشن لگاتا ہوں۔ فرسٹ ایڈ کا جو بھی علاج ہوتا ہے وہ میں دیتا ہوں۔ جو زیادہ سنگین طور پر زخمی ہوتے ہیں، ہمارا ایک آشرم ہے، ہم ان لوگوں کو وہاں شفٹ کر دیتے ہیں۔ اگر کسی کی سرجری ضروری ہے، تو سرکاری ہسپتال سے رابطہ کرکے ان کی سرجری کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں، جو سفر میں ہیں، کسی نے ان کے چہرے پر بلیڈ مار دیا، پیسے چھین لیے۔ اتنی جلدی وہ کہاں جائیں۔ تو ان کی پٹی کرتے ہیں اور فرسٹ ایڈ دیتے ہیں۔ میری اہلیہ ساتھ میں آتی ہیں اور ڈریسنگ کرتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا