سات اکتوبر 2023 مشرق وسطیٰ ہی نہیں دنیا کے لیے ایک غیر معمولی دن ثابت ہونے جا رہا ہے۔ فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کی طرف سے اسرائیل پر اس قدر اچانک، حیران کن اور بڑا حملہ ’نارملائزیشن‘ کے پھیلتے عمل میں بہت کچھ ’ابنارمل‘ کر دینے کا ’پوٹینشل‘ رکھتا ہے۔
گویا مشرق وسطیٰ میں سفر جس سمت میں اور جس رفتار سے چل رہا تھا، اب ان دونوں پر اثر پڑنا ہر گز دور کی بات نہیں۔ جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صورت حال کے نا صرف خطے بلکہ دنیا میں بدلتے حالات پر بھی گہرے اثرات ہوں گے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ حماس کے حملے سے اکیلا ’نارملائزیشن‘ کا عمل ہی مختلف ہو گا یا خطے اور دنیا پر دیگر کئی رجحانات کا بیج بھی ڈل سکے گا۔ اس کا جائزہ لیتے ہوئے فلسطینی تھنک ٹینک الزیتونہ سینٹر فار سٹڈیز اینڈ کنسلٹیشن کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محسن صالح کا کہنا تھا کہ ’ہم اسرائیل سے بات شروع کرتے ہیں، جہاں اس وقت حماس نے بیسیوں مقامات کو اسرائیل کے لیے دیوار گریہ میں تبدیل کر دیا ہے۔‘
انڈیپنڈنٹ اردو کے اس سوال، کیا حماس کے اس حملے کے آس پاس پر اثرات کا بھی جائزہ لینا حقیقت پسندی ہو گی؟ پر فلسطینی کلچرل آرگنائزیشن ملائیشیا کے سربراہ ڈاکٹر مسلم عمران نے رائے دیتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل ـ۔ مذہبی انتہا پسندی کے غلاف میں لپٹی مگر اصلاً دہشت گردانہ پس منظر رکھنے والی جماعتوں سے اتحاد کی بنیاد پر جب سے نتن یاہو چھٹی بار وزیر اعظم بنے ہیں، کثیر الجہتی عدم استحکام اسرائیل کے در وبام کی تصویر اور صبح و شام کی تحریر ہے۔
’نتن یاہو اور ان کے اتحادیوں پر کرپشن کے الزامات اور دہشت گردی کی شناخت ہی کافی تھی۔ مگر اس میں اضافہ یہ ہوا کہ عدلیہ اور فوج کو بیک وقت نشانے پر لے لیا گیا۔ صورت حال نے سیاسی، سماجی اور معاشی سطحوں پر عدم استحکام پیدا کر دیا۔
’عدلیہ اور پارلیمنٹ آمنے سامنے آ گئیں اور سرمایہ کار کمپنیوں نے اسرائیل کے دہشت گردانہ خمیر سے اٹھائی گئی انتہا پسند جماعتوں کے غلبے کا ماحول دیکھا تو اسرائیل سے اڑان بھرنے کا سوچنے لگیں۔ اب یہ سلسلہ پہلے سے بھی تیز تر ہو سکتا ہے کیوں کہ اسرائیل غیر محفوظ ملک ثابت ہو رہا ہے۔ نتن یاہو کے چھٹے دور حکومت نے شاخ نازک کے آشیانہ نما اسرائیل کو مزید غیر مستحکم کر رکھا ہے۔‘
فلسطینی تھنک ٹینک الزیتونہ سینٹر فار سٹڈیز اینڈ کنسلٹیشن کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محسن صالح سمجھتے ہیں کہ ’اسرائیل میں اب سیاسی، سماجی اور مذہبی افراط و تفریط کا راج شدید تر ہے۔ ایسے میں حماس جیسی فلسطینی تنظیم کا ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کے مصداق اسرائیل پر حملہ ایک بڑا واقعہ ہے۔‘
انتشار کے شکار اسرائیل کو حماس کا حملہ مستحکم ہونے میں مدد دے گا یا مزید غیر مستحکم کرے گا؟ اس کا فوری جواب مشکل ہو سکتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر محسن صالح کی رائے میں اشارے غیر مستحکم اسرائیل کے حوالے سے زیادہ ہیں۔
ان کے بقول: ’ہفتے ہی کے روز گوریان ایئرپورٹ پر ملک سے بھاگنے والوں کا جمگھٹا اچھی علامت نہیں۔ خصوصاً ایسے حالات میں جب نتن یاہو کا بیٹا پہلے ہی اسرائیل سے نکل بھاگنے کے لیے سرگرداں تھا۔ سرمایہ کار کمپنیاں ویسے ہی نازک مزاج ہوتی ہیں۔‘
فلسطینی کلچرل آرگنائزیشن ملائیشیا کے سربراہ ڈاکٹر مسلم عمران سمجھتے ہیں کہ ’حماس کے لیے یہ حملہ اس لیے بھی شدید ضروری ہو گیا تھا کہ حالیہ برسوں میں کشمیری عوام کی طرح فلسطینی عوام کی مایوسی آخری حدوں کے قریب تھی۔ عالمی ادارے، عالمی طاقتیں اور طاقتور حکومتوں کی ہلہ شیری کی بنیاد پر ہونے والے معاہدات سب ہی عملی طور پر بے سود اور مایوس کن تو ثابت ہو چکے ہیں۔‘
اب عرب دنیا بھی کھل کر فلسطین اور فلسطینیوں کے حق میں ’ایکسٹرا ابنارملائزڈ‘ جبکہ اسرائیل کے حق میں ’نارملائزڈ‘ دکھائی دینے لگی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ جب فلسطینی عوام کے لیے عرب دنیا کی ڈھارس بھی کمزور پڑنے کا خدشہ پیدا ہوا تو فلسطینیوں کو اس حملے کا ’رسک‘ لینا پڑا۔
اسماعیل ہنیہ کا یہ کہنا ’۔۔۔۔ ہماری سرزمین پر اسرائیلی قبضہ بہت ہو چکا۔ اب انتفاضہ کا سلسلہ مکمل ہونا چاہیے۔‘ شاید اسی جانب اشارہ ہے۔
ایران میں مقیم فلسطینی سکالر اور ماہر امور مشرق وسطیٰ ڈاکٹر خالد کو اس بات کا رنج ہے کہ ’تمام تر کوششوں کے باوجود اہل فلسطین ’نارملائزیشن‘ کے عمل میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ قطر میں فیفا ورلڈکپ کے موقع پر عرب کھلاڑیوں اور تماشائیوں کا فلسطین کے لیے والہانہ پن اس پس منظر میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اب کچھ رکاوٹ ضرور آ سکتی ہے۔ ’نارملائزڈ‘ ملکوں کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی اور یہ فلسطینی حملہ ام الجہود کہلائے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلاشبہ ایران بھی مشرق وسطیٰ کا اہم کھلاڑی ہے لیکن عالمی اور خطے کی سطح پر تقریباً اکیلا ہو چکا تھا۔ اس لیے اسرائیل کے حق میں ہونے والے حالیہ برسوں کے واقعات کو روک نہ سکا تھا۔ چین کی مدد سے قدرے سکھ کا سانس لینے کے بعد اسرائیل پر حماس کا یہ حملہ ایران کے لیے بھی امید بنا ہے۔
ہفتے کے روز حماس کے اسرائیل پر راکٹ حملے اور اتوار کے روز حزب اللہ کے توپ خانے اور میزائلوں کی مدد سے سرحدی علاقے میں اسرائیلی ٹھکانوں پر نشانہ بازی اس تناظر میں غیر اہم نہیں ہے۔
مصر، ایران کے مقابلے میں فلسطین سے زیادہ قریب کا محل وقوع رکھتا ہے۔ اتوار کے روز مصری پولیس افسر کا ساحلی شہر سکندریہ میں دو اسرائیلی سیاحوں کو سر عام گولی مار کر ہلاک کر دینا غیر معمولی ہے۔
ڈاکٹر محسن صالح نے اسرائیلی سیاحوں پر فائرنگ کے واقعے کو غیر معمولی پیشرفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’مصری عوام اور زخم خوردہ اخوانی کیا سوچتے ہیں اور سیاسی اعتبار سے کیا کردار ادا کر سکتے ہیں، اس پر غور نہ بھی کیا جائے تو مصری پولیس افسر کی ذاتی بندوق سے اسرائیلی سیاحوں پر چلنے والی گولیاں بہت کچھ بتا رہی ہیں۔‘
مصری صحافی اور ریشین ٹوڈے کے نامہ نگار طارق محی الدین نے خدشہ ظاہر کیا کہ رواں برس دسمبر میں صدر السیسی کا تیسری بار صدر منتخب ہونے کا خواب ساجھ سبھاؤ کے ساتھ پورا ہونا اب مشکل ہو گا۔
رفح راہداری پر لگائے گئے مصری تالے ہی نہیں کھل سکتے، السیسی حکومت کو مستقبل میں فلسطین پالیسی کا بھی از سر نو جائزہ لینا ہو گا۔ بصورت دیگر اگلے صدارتی انتخاب میں فلسطین کا ایشو صدر السیسی کے لیے خطرناکی پیدا کر سکتا ہے۔
آخر میں وہ پہلی بات ۔۔ ہفتہ کا دن اور سات اکتوبر 2023 مشرق وسطیٰ اور پوری دنیا کے تبدیل ہوتے حالات میں ایک نیا موڑ ثابت ہو رہا ہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ بھی اسرائیل کے حوالے سے نئے حالات میں نئی آزمائش سے دوچار ہو گی۔
’نارملائزیشن‘ کے لیے امریکی شیڈول اب بہرحال متاثر ہو گا۔ امریکہ کے اندر بھی اور امریکہ سے باہر بھی حالات کے تقاضے بدل جائیں گے۔ حتیٰ کہ یوکرین پر بھی امریکی ’فوکس‘ متاثر ہو سکتا ہے۔