’خان صاحب کی ضمانت کا فیصلہ کیوں نہیں ہوا؟‘ بشری بی بی کا سوال

سابق وزیراعظم کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت کی سماعت پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جہاں سابق خاتون اول بشریٰ بی نی اور عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان بھی موجود تھیں۔

سابق خاتون اول بشریٰ بی بی اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان اسلام آباد ہائی کورٹ کے کمرہ عدالت میں وکیل سے گفتگو کر رہی ہیں (مونا خان/انڈپینڈنٹ اردو) 

سائفر کیس میں عمران خان کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران پیر کو سابق خاتون اول بشریٰ بی بی پہلی مرتبہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں موجود تھیں۔ دو گھنٹے کی سماعت کے بعد انہوں نے وکیل سے دریافت کیا کہ اتنے دلائل ہوئے ہیں تو آج فیصلہ کیوں نہیں ہوا؟ بیرسٹر سلمان صفدر نے بتایا کہ آج آدھے دلائل ہوئے ہیں، باقی جمعرات کو مکمل ہوں گے اور پھر فیصلہ ہو گا۔

سماعت کے بعد 10 منٹ تک بشریٰ بی بی اور عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے وکیل سلمان صفدر سے کیس بارے میں معلومات لیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت پر چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔ 

گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ وکلا کی جانب سے حساس دستاویزات کی نشاندہی پر صرف محدود کارروائی ان کیمرا ہو گی۔

عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور ہمشیرہ علیمہ خان سماعت سے قبل ہی کمرہ عدالت میں موجود تھیں اور روسٹرم کی دائیں پہلی کرسیوں میں سے ایک پر براجمان تھیں۔

درخواست ضمانت کی کارروائی کے دوران بشریٰ بی بی مسلسل تسبیح پڑھتی رہیں۔

پیر کی سماعت کے دوران درخواست گزار عمران خان کی جانب سے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔

سپیشل پراسیکیوٹرز راجہ رضوان عباسی، ذوالفقار عباس نقوی اور شاہ خاور بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ حکومت کی نمائندگی کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ’اگر کوئی ایسی چیز آتی ہے جو حساس ہو تو پھر دونوں وکلا کی مشاورت سے ان کیمرا دلائل سنیں گے۔‘

اس پر پراسیکیوٹر شاہ خاور نے کہا کہ ’ہم کورٹ کی معاونت کرتے ہوئے بتا دیا کریں گے کہ فلاں بیان کا یہ حصہ کورٹ صرف خود پڑھ لے۔‘

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان کے مؤکل پر ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیے جانے کا الزام ہے۔

’ایف آئی آر کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے پرسنل سیکرٹری اعظم خان کو میٹنگ منٹس تیار کرنے کا کہا، سائفر کو غیر قانونی طور پر پاس رکھنے اور غلط استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا، کہا گیا کہ اسد عمر اور اعظم خان کے کردار کو تفتیش کے دوران دیکھا جائے گا، ایف آئی اے نے سیکرٹری داخلہ کے ذریعے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مقدمہ کے چالان میں کتنے افراد کو ملزم بنایا گیا ہے؟

بیرسٹر سلمان صفدر نے جواب دیا کہ چالان میں سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کو ملزم بنایا گیا ہے۔

اس موقع پر سپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے عدالت کو بتایا کہ فارن سیکرٹری کی ڈومین ہوتی ہے کہ سائفر کس کس کو بھجوانا ہے۔

چیف جسٹس نے مزید پوچھا کہ کوئی سٹینڈرڈ پریکٹس نہیں کہ کس کس آفس کو لازمی جانا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے بتایا کہ ’جی۔ یہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ سائفر کا پیغام کس نوعیت اور کس شدت کا ہے، آخر میں اوریجنل سائفر رہ جاتا ہے، ڈی کوڈڈ ٹیکسٹ نہیں۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کا سو سال پرانا قانون ہے،  اس ایکٹ کے اندر کسی جگہ سائفر کا ذکر نہیں، کہوٹہ پلانٹ کی تصاویر لے کر دشمن ملک کو دے دوں، اس پر لگتا ہے آفیشل سیکرٹ ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن پانچ اے کی سزا 14 سال قید یا سزائے موت ہے۔‘

وکیل نے مزید کہا کہ کسی دشمن ملک سے سائفر شیئر نہیں کیا، قومی سلامتی کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں کیا۔‘

چیف نے استفسار نے کہا کہ آپ دشمن ملک کس کو کہیں گے؟ ’عموماً جنگ کے موقع پر ہوتا ہے کہ یہ فلاں دشمن ملک ہے۔‘

سلمان صفدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’یہاں کلبھوشن جادیو، ابی نندن یا کہوٹہ پلانٹ کے نقشے بنانے کا واقعہ نہیں ہے، پہلے یہ قانون پڑھا اور پھر کہانی لکھ کر تمام وہی الفاظ شامل کر دیے گئے، اس قانون کو بہتر کرنے کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی، اب اس میں ترمیم کر کے سائفر کو شامل کیا گیا،کوشش کی گئی ہے کہ تبدیلی لے آئیں مگر اس کا اطلاق اس ایف آئی آر پر نہیں ہو سکتا، بدنیتی کی بنا پر قانون میں نئی ترمیم کی گئی، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترامیم چیلنج بھی کی جا چکی ہیں۔‘

عدالت نے کیس کی سماعت مزید دلائل کے لیے جمعرات تک ملتوی کر دی۔

سائفر کیس میں عمران خان کی ضمانت پر دلائل کی باقاعدہ پہلی سماعت تھی، جبکہ 17 اکتوبر کو فرد جرم عائد کیا جائے گا۔  ٹرائل کورٹ سے انہیں ضمانت نہ ملنے کے باعث عمران خان ابھی اڈیالہ جیل میں زیر حراست ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان