برف باری کی وجہ سے نو گو ایریاز بننے والی گزر گاہیں

پاکستان کے شمالی علاقوں میں ستمبر میں برف باری کا آغاز ہوتا ہے اور بلند پہاڑی درے برف سے اٹ کر ایسی دیواریں بن جاتے ہیں، جنہیں سر نہیں کیا جا سکتا ہے۔

15 اگست 2019 کی اس تصویر میں پاکستان کے شمالی علاقے گلگت میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع برف پوش پہاڑوں اور گلیشیئرز کا منظر دیکھا جا سکتا ہے (ایملی ہیرنسٹین /اے ایف پی)

پاکستان میں ستمبر میں برف باری کا آغاز ہوتا ہے، جب بلند پہاڑی درے طرفین کے علاقوں کے درمیان برف کی ایسی دیواریں بن جاتے ہیں، جنہیں نہ تو سر کیا جا سکتا ہے اور نہ وہ پگھل کر پانی ہوتے ہیں۔ یہ بلند ترین راستے سال بھر میں صرف دو سے تین ماہ کے لیے کھلتے ہیں اور باقی عرصہ ان پر پڑی برف انسان کو بے بس کیے رکھتی ہے۔

بڑے شہروں کو آپس میں ملانے والے کئی درے اب زیر پہاڑ تعمیر کی گئی ٹنلز کی وجہ سے برف کی رکاوٹ سے آزاد ہو چکے ہیں۔ پاک چین دوستی کے نام سے شاہراہ قراقرم پر تعمیر کی گئی سرنگیں اب سال بھر زمینی رابطوں کو بحال رکھتی ہیں اور مسافروں کو لینڈ سلائیڈنگ کا خوف بھی نہیں رہتا۔

خیبر پختونخوا کے اضلاع چترال اور دیر کے درمیان درہ لواری ہمیشہ سے حائل ہے۔ لواری ٹنل کی تعمیر سے پہلے برف کی مضبوط رکاوٹ کی وجہ سے سات آٹھ ماہ تک چترال، مستوج اور دروش کے علاقے نو گو ایریاز بنے رہتے تھے۔

ساڑھے 10 کلومیٹر طویل ٹنل نے دنوں کے سفر کو گھنٹوں میں تبدیل کر دیا ہے اور اب چترال بھی پاکستان کا آباد شہر محسوس ہونے لگا ہے۔ تیرہ ہزار 700 فٹ بلند بابو سر پاس اب بھی سال کے آٹھ مہینے بند رہتا ہے۔ رواں برس کے دوران 12 جون تک بابو سر کی برف نہیں ہٹائی جا سکی تھی، جس کے سبب سیاح ناران میں پھنسے رہے۔ 

پاکستان میں بلند ترین دروں کی اپنی اپنی تاریخ اور جغرافیائی حیثیت ہے۔ بلند ترین دروں میں بابو سر، بولان، بروغل، چاپروٹ، دورہ، گوندو گورو، گومل، حایل، ہسپار، کڑاکڑ، خنجراب، خیبر، کلک، کوہاٹ، لواری، مالاکنڈ، منٹکا، نلتر، شیندور اور ٹوچی کے درے شامل ہیں۔

ان دروں میں بلند ترین گوندو گورو پاس ہے، جس کی بلندی 5940 میٹر ہے۔ یہ درہ گلگت کی حوشی وادی کو کنکورڈیا سے ملاتا اور یہاں سے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے۔ٹو کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس درے نے بھی 10 ماہ تک گزر گاہ کو عام سیاحوں کے لیے بند رکھا جاتا ہے۔ 

منٹکا پاس (4700 میٹر بلند) درہ خنجراب کے مغرب میں ایستادہ ہے اور شاہراہ ریشم کے مسافر اسے گزر گاہ کے طور پر عبور کرتے ہیں۔ برف درہ منٹکا کو بھی بے بس کیے رکھتی ہے۔

دورہ پاس کی 5030 میٹر بلندی گلگت کی غذر ویلی کو بالائی سوات سے ملاتی ہے اور صرف چند گرم دن ہی اس درے کو کھلنے پر مجبور کرتے ہیں۔  

درہ چلنجی 5300 میٹر بلند ہے اور بالائی ہنزہ کی چپرسن وادی کو اشکومن اور کرومبر سے جوڑتا ہے۔ ہم نے بطور سیاح کئی بار اس درے سے شکست کھائی اور برف کو مات نہ دے سکے۔

برزل پاس 4200 میٹر بلندی کے ساتھ کشمیر اور گلگت کی واحد قدیم گزرگاہ تھی اور آج کل استور سے کارگل کو ملاتا ہے۔ جون میں کھلنے والے برزل کے راستے ستمبر میں پھر برف کے حصار میں ہیں۔

شمشال پاس 4735 میٹر بلندی کے ساتھ کوہ پیماؤں کو کے۔ٹو کے شمالی چہرے کی طرف لے جاتا ہے اور شمشال سے برالدو کا سفر ممکن بناتا ہے، مگر اس درے کو انسانی قدم صرف جولائی اور اگست کے دوران ہی چھو سکتے ہیں۔ 

کرومبر کی بلندی بھی 4300 میٹر کے ساتھ گلگت کے ضلع غذر اور چترال کی سرحد کو اشکومن پر باہم ملاتی ہے۔ ہم کرومبر تک پہنچنے کا خواب انہی برفوں کی وجہ سے شرمندہ تعبیر نہیں کر سکے۔ 

بروغل پاس کا درہ بلندی میں کچھ کم ہے، مگر افسانوی واخان کوریڈور میں افغانستان کے بدخشاں صوبے کو پاکستان کے ضلع چترال سے جوڑتا ہے۔

کاچی کانی پاس کی 4700 میٹر بلندی چترال کی وادی سرمی کو سوات ویلی کے قریب کرتی ہے۔ 

درہ برزل گلگت کے ضلع استور میں واقع کشمیر اور گلگت کی قدیم گزر گاہ رہی ہے، جسے شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے قبل کاروباری قافلے نقل و حمل کے لیے استعمال کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماضی میں درہ برزل کی دونوں سمتوں میں موجود بستیاں تجارتی لوگوں کے لیے قیام گاہوں کے طور پر محفوظ آبادیاں تھیں۔ کشمیر سے آنے والے منی مرگ میں رات گزارتے اور پھر برزل پاس کے مشقت بھرے سفر کے بعد استور میں رکتے۔ آج کل درہ برزل لائن آف کنٹرول تک فوجی سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال ہوتا ہے اور چلم چوکی سے کارگل تک یہ علاقہ پاک افواج کی کڑی نگرانی میں ہے۔ 

درہ برزل کی چوٹی پر بھی شہدائے کارگل کی یادگاریں بنائی گئی ہیں اور برف کے انباروں میں جوان چوکس کھڑے ہیں۔ برف کی لپیٹ میں رہنے والا یہ درہ بھی نقل و حرکت کو ناممکن بناتا ہے۔ جون کے وسط میں بھی یہاں پر برف کا راج رہتا ہے۔

برزل کی مغربی ڈھلوان سے دریائے استور کا آغاز ہوتا ہے جو بعد میں اپنے شفاف پانی کے ساتھ سندھ میں جا گرتا ہے۔ تیرہ ہزار 808 فٹ بلند یہ درہ گلگت سے 178 کلومیٹر دور ہے، جس کے اطراف میں 61 دیہاتوں میں 17 ہزار افراد آباد ہیں۔ سیاحت کے ایک سیزن میں 60 ہزار گاڑیاں اس درے کو عبور کرکے منی مرگ اور ڈومیل پہنچتی ہیں۔

سردیوں میں منفی 30 ڈگری درجہ حرارت یہاں پر زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے مگر پھر بھی ملک کی حفاظت کے لیے مامور جوان یہاں پر چوکس کھڑے نظر آتے ہیں۔

وطن عزیز کے دوسرے تمام دروں کی طرح یہاں پر بھی جب برف پگھلتی ہے تو پھر ان ڈھلوانوں پر بےشمار رنگوں کے انگنت پھول کھلتے ہیں، جن پر انہی پھولوں کے رنگوں جیسی تتلیاں آتی ہیں۔ برزل کی دوسری جانب منی مرگ اور ڈومیل کی وادیاں ہیں، جنہیں زمین پر جنت کا نام دیا جاتا ہے۔

ستمبر سے جون کے وسط تک ان دروں کو عبور کرنا برف میں دفن ہونے کے مترادف ہے۔ جون، جولائی اور اگست میں بھی بھاری مشینری کے ذریعے صرف راستہ بنایا جاتا ہے، جب کہ اطراف میں ایستادہ برف کی بلند دیواریں ناقابل شکست رہتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ