فری لانسرز کے لیے ڈیجیٹل نومیڈ ویزا کیا ہے اور یہ کیسے ملتا ہے؟

نومیڈ ویزا عموماً وقتی ورک ویزا ہوتا ہے جس پر آپ جاتے ہیں اور ایک سال سے چار سال تک کسی بھی ملک میں رہتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں لیکن چند ممالک میں اسے شہریت حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

دنیا بھر کے کئی ممالک میں فری لانسرز اور آن لائن کام کرنے والوں کو متوجہ کرنے کے لیے نومیڈ ویزا کا اجرا کیا جا رہا ہے جس کے لیے مختلف طریقہ کار اور شرائط رکھی گئی ہیں۔

اس رپورٹ میں ہم انڈپینڈنٹ اردو کے قارئین کے لیے اس حوالے سے تفصیلات پیش کر رہے ہیں کہ یہ ویزا کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کر کے کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، یہ جاننے کے لیے ہم نے کچھ ویزا ماہرین سے بات کی ہے۔

بلال اسلم، ٹرو ہولی ڈیز نامی ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور ویزا کنسلٹنٹ ہیں۔

بلال نے نومیڈ ویزا کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’ڈیجیٹل نومیڈ ویزا کو ریموٹ ورک ویزا بھی کہتے ہیں۔ یہ ویزا دراصل اس ورکر کے لیے ہوتا ہے جو اپنا کام دنیا میں کہیں بھی بیٹھ کر سکتا ہے جس میں فری لانسرز آتے ہیں۔‘

بلال نے بتایا کہ ’یہ ویزہ 50 سے زیادہ ممالک دے رہے ہیں۔ سوال یہ آتا ہے کہ ہمیں کس ملک کا ویزا لینا چاہیے؟ اس میں آپ نے اپنی ضرورت کو دیکھنا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھیں کہ کیا آپ اس ملک میں جا کر بسنا چاہتے ہیں یا آپ وقتی طور پر جگہ تبدیل کرنا چاہ رہے ہیں؟‘

’عموماً یہ وقتی ورک ویزا ہوتا ہے کہ آپ جاتے ہیں اور ایک سال سے لے کرتین، چار سال وہاں رہتے ہیں اور پھر آپ اپنے ملک میں واپس آجاتے ہیں۔‘

بلال کے مطابق ’دوسرا آپ اسے مستقل رہائش کی طرف بھی لے کر جا سکتے ہیں۔ اس میں یہ بھی اہم ہے کہ آپ فیملی کو لے کر جانا ہے یا اکیلے جانا ہے؟مثال کے طور پر اگر ہم ہنگری کے نومیڈ ویزا کی بات کریں تو ویاں آپ فیملی کو نہیں لے کر جا سکتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اسی طرح اسٹونیا کے ویزا میں توسیع ممکن نہیں ہے۔ دیکھنا ہے آپ کتنے عرصے کے لیے جا رہے ہیں۔ فیملی کو لے کر جانا چاہ رہے ہیں یا نہیں۔ یہ ویزا شہریت کی طرف لے جاتا ہے یا نہیں؟‘

’پرتگال ایک ایسا ملک ہے جہاں اگر آپ ڈیجیٹل نومیڈ ویزا پر پانچ سال تک رہتے ہیں تو آپ اس کو مستقل رہائش میں تبدیل کر وا سکتے ہیں اور اس کے بعد یہ شہریت کی طرف بھی چلا جاتا ہے۔‘

بلال کے مطابق ’جرمنی نومیڈ ویزا کو فری لانسر ویزا کہتا ہے ۔ یہاں کا آپ کو ایک فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ باقی ممالک یہ کہتے ہیں کہ آپ کی ایک حد تک آمدن ہونی چاہیے جیسے کروشیا کہتا ہے کہ 23 سو یوروز ہونی چاہیے۔ دبئی کے لیے آپ کی آمدن پانچ ہزار یورو ہونی چاہیے۔ کچھ ممالک آپ سے 2500 سے 5000 یورو ماہانہ آمدن مانگتے ہیں لیکن جرمنی میں اس طرح کی کوئی شرط نہیں ہے۔

’جرمنی کے لیے اگر آپ کی آمدن اتنی نہیں ہے لیکن آپ کے پاس نو ہزار یورو بینک میں پڑے ہوئے ہیں تو آپ اپنا پراجیکٹ کانٹریکٹ دکھا کر جرمنی جا سکتے ہیں۔‘

بلال کہتے ہیں کہ ’نومیڈ ویزا اپلائی کرنا انتہائی آسان ہے۔ آپ آن لائن بھی کر سکتے ہیں یا آپ کسی کنسلٹنٹ کو رکھ لیں جو آپ کو یہ خدمات فراہم کرے گا۔ آن لائن ایپلی کیشنزفارمز ہوتے ہیں۔ کئی صورتوں میں آپ کو وی ایف ایس کو رابطہ کرنا پڑتا ہے اور انہیں اپنے سارے دستاویزات دکھانے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک ملک کہتا ہے کہ آپ کی ماہانہ آمدن دو ہزار یورو ہونی چاہیے تو آپ کے پاس دوسری چیز آپ کی نوکری کا معاہدہ ہونا چاہیے۔‘

بلال کا کہنا تھا کہ ’دوسرے دو ہزار یورو آپ کے بینک اکاؤنٹ میں نظر آںے چاہیے۔ یہ آپ کے دو ثبوت بنتے ہیں۔‘

بلال کے مطابق: ’اگر ہم سب سے سستے ملک کی بات کریں تووہ پرتگال ہے، آپ کی ماہانہ آمدن اگر705 یورو بھی ہے، آپ پرتگال کا ڈیجیٹل نومیڈ ویزا اپلائی کر سکتے ہیں۔‘

بلال کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم اور ممالک کی بات کریں تو یورپ کے کافی ممالک آپ کو ڈیجیٹل نومیڈ ویزا دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کو گلف ممالک جیسے دبئی، ٹراپیکل میں تھائی لینڈ اور مالدیپ یہ ویزا دے رہا ہے۔‘

بلال کہتے ہیں کہ ’اس ویزا کو لانچ کرنے کی وجہ ڈیجیٹل پول کو اپنی طرف کھینچنا۔ فارن ریمٹینس لے کر آنا اورٹیکسیشن کا حصہ بنانا ہے۔ کرونا کی وبا کے بعد یہ کافی حد تک ممکن ہو گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان ممالک نے ڈیجیٹل نومیڈ کی اجازت دی ہے۔‘

’یہ دو سال پہلے  شروع ہوا تھا اور ابھی بھی یہ اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ کئی ممالک اس میں مسلسل بہتری لا رہے ہیں۔ اس میں مزید آسانیاں پیدا کی جا رہی ہیں۔‘

بلال کے مطابق ’یہ ویزا مہنگا نہیں ہے۔ اس کی ابتدائی فیس 35 یورو سے شروع ہو کر دو ہزار یوروز تک جاتی ہے وہ بھی بڑے کم ممالک ہیں۔ اگر ہم بڑے ملکوں کی بات کرتے ہیں تو ان کا بھی اتنا ہی خرچہ ہے 35 یورو، 100 یورو، 150 یورو اس طرح کا خرچہ ہے تو یہ آپ کی پہنچ میں ہے۔‘

بلال کے مطابق ’یہ ویزا جیب پر بھاری نہیں ہے اور یہ آپ کی زندگی کا سٹائل تبدیل کر دے گا۔‘

بلال نے بتایا کہ ’لوگ اکثر یہ بھی پوچھتے ہیں کہ آپ ایک دوسرے ملک میں جا رہے ہیں تو آپ نے ٹیکس دینا ہے یا نہیں دینا؟‘

بلال کے مطابق ’اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کتنے دورانیے کے لیے جا رہے ہیں؟ کچھ ممالک آپ کے وہاں رہنے کے دورانیے کو بھی کیپ کرتے ہیں۔‘

’جیسے پرتگال کہتا ہے کہ 24 مہینوں میں سے 16 مہینے آپ نے پرتگال میں رہنا ہے۔ اسی طرح کچھ ممالک کہتے ہیں کہ اگر آپ ایک خاص مدت سے کم عرصہ رہ رہے ہیں توآپ کو ڈبل ٹیکسیشن کی ضرورت نہیں ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’آپ اپنے ملک میں ٹیکس دے سکتے ہیں۔ اس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس ملک میں ٹیکسیشن کتنی ہے؟ جیسے ہم دبئی کی بات کریں تو وہاں بہت سے غیر ملکی آتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں پر ٹیکس بہت کم کٹتا ہے۔ ٹیکسیشن کا عمل ہر ملک میں مختلف ہے۔ اور یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ وہاں کتنا عرصہ ٹھہر رہے ہیں؟‘

بلال کے مطابق ’آپ نے ایسے ہی ویزا اپلائی نہیں کر دینا کہ آپ کو کسی نے کہا کہ ڈیجیٹل نومیڈ ویزا بڑا اچھا ہے جرمنی چلے جائیں۔ آپ نے دیکھنا ہے کہ وہ ملک آپ کو سوٹ کر رہا ہے کہ نہیں۔‘

’اس کے لیے آپ کو کتنی آمدن چاہیے، وہاں آپ فیملی لے کر جا سکتے ہیں یا نہیں، وہاں ٹیکسیشن کتنی ہے وہاں کا موسم کیسا ہے؟ یہ وہ سارے عوامل ہیں جن کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔‘

ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور آؤٹ سورسسنگ کی کمپنی کانسیپٹ بینز کی بانی وجہیہ غزل کہتی ہیں ’اگر آپ دوسرے ممالک میں اپنا آفس بنانا چاہتے ہیں تو وہاں پر آپ کو کام کے لیے اجازت نامہ لینا ہوتا ہے۔ آپ کو بزنس سیٹ کرنے لیے مختلف ضروریات ہوتی ہیں۔ بہترین شارٹ کٹ حل یا بہترین موقع آج کل جو چل رہا ہے وہ ڈیجیٹل نومیڈ ویزا ہے۔‘

وجیہہ نے بتایا کہ ’کرونا کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے ممالک میں افرادی قوت کا کافی مسئلہ آ رہا ہے۔ پہلے یہ ممالک آؤٹ سورس کر رہے ہوتے تھے۔ ہم یہاں دور بیٹھے کام کر رہے ہوتے تھے۔ لیکن اب انہیں مین پاور کی کمی کا سامنا ہے تو آج کل وہ اپنے ہی ممالک کے اندر یہ ویزا آفر کر رہے ہیں اور مین پاور کو اپنے ممالک کی طرف کھینچ رہے ہیں۔‘

وجیہہ کے مطابق ’پاکستان میں فری لانسرز کو ٹائم زون کے مسائل کا سامنا بھی ہے۔ اگر ہم آسٹریلین ٹائم کے مطابق کام کر رہے ہیں تواس کے لیے آپ کو صبح چار بجے اٹھنا پڑ رہا ہے۔‘

’اگر آپ امریکہ کے وقت کےمطابق کام کر رہے ہیں تو ہمیں رات گئے کام کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ہمارے شام کے پانچ، چھ بجے ان کا دن شروع ہو رہا ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کے لیے کتنا مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ زیادہ تر غیر ملکی کمپنیاں اپنے وقت کے مطابق ہمارے ساتھ کام کرتی ہیں۔ وہ اپنا وقت ہمیں بتاتے ہیں اور ہم اس ٹائم پر کام کرتے ہیں۔ جب آپ ان کے ٹائم زون کے مطابق چلتے ہیں تو رات گئے تک کام کرنا پڑتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹیکنالوجی