مٹی میں لتھڑے ہوئے ہاتھ لیے ایک خاتون کراچی کے آرٹس سکول کے طلبہ و طالبات کی استاد بنی بیٹھی ہیں اور بتا رہی ہیں کہ کیسے اور کتنی بار مٹی کو گوندھ کر سانچے میں ڈھالا جائے کہ گندھی مٹی بہترین ٹیرا کوٹا آرٹ بن جائے۔
شکاری قبیلے سے تعلق رکھنے والی یہ نوجوان خاتون شریفہ بی بی ہیں جنہوں نے ہیریٹیج فاونڈیشن کی ’مکلی گرین سکلز لائیولی ہڈ پروجیکٹ‘ کے تحت ٹیرا کوٹا آرٹ ورک سیکھا اور اب اپنے قبیلے کی خواتین کو یہ ہنر سکھا رہی ہیں۔
’شکاری‘ بھیل قبیلے کی ذیلی شاخ پالاری ذات سے ہیں۔ ان کی پہچان خانہ بدوشی اور شکاری کتے ہیں۔ شریفہ بی بی کے مطابق ان کے مرد ’وڈیروں کے لیے شکار کرتے ہیں۔ عورتیں بھیک یا مانگ تانگ کر گزارا کرتی ہیں۔ عورتوں نے کبھی شکار نہیں کیا۔ لیکن انہیں معلوم ہے کہ شکار کیسے کیا جاتا ہے۔‘
شکاری لوگ عقائد کے لحاظ سے ہندو ہیں لیکن ان کئی طریقے اور رہن سہن انہیں ہندو سے زیادہ مسلمانوں سے قریب کر دیتے ہیں، جیسے ان کے نام، شادی کے موقعے پر نکاح کی رسم اور دعا اور روزوں اور عید کا اہتمام۔ اس کے علاوہ یہ لوگ مورتی پوجا بھی نہیں کرتے۔
ہم نے شریفہ سے بات کرنا شروع کی تو، پہلے وہ شرما گئیں اور چہرے کو دوپٹے سے چھپا لیا۔ لیکن رفتہ رفتہ کھل گئیں اور اپنے لہجے اور انداز میں گفتگو کا آغاز کیا۔ انہوں نے بتایا کہ دو سال پہلے ہیریٹیج فاونڈیشن کو کام کرنے والے لوگ درکار تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ ’جب ان لوگوں نے مجھے کام سیکھنے کا کہا تو سوچا ہاں ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کماؤں، چار پیسے میرے پاس بھی ہوں۔ اور کچھ اچھا سیکھوں۔
انھوں نے کپڑوں سے مٹی جھاڑی اور کھڑی ہو گئیں اور ہمیں بانسوں سے بنے ہوئے ڈسپلے سٹینڈ پر رکھی ہوئی چیزیں دکھانے لگیں۔ انہوں نے کہا، ہم ان پڑھ ہیں، لیکن یہ سب وال ہینگنگ، کی چین، برتن پیالے اور ڈیکوریشن پیس ہم نے بنائے ہیں۔ ادھر وہ درخت اور پودے بھی لگا رہے ہیں۔ یہ لوگ بتا رہے ہیں کہ کیسے ہم ماحول کو خراب لیے بغیر آسان زندگی گزار سکتے ہیں۔‘
پاس بیٹھی خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ان خواتین کو یہ کام سکھا رہی ہوں۔ شروع میں یہاں کوئی آنے کے لیے تیار نہیں تھا کیونکہ ہم سے پہلے جو قبیلہ یہاں آ رہا تھا ان کے وڈیرے نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ یہاں اچھا کام نہیں ہوتا۔ وڈیرے کے حکم پر سب پیچھے ہٹ گئے۔
’لیکن مجھے دیکھ کر اور عورتیں آئیں۔ میری پہلی شاگرد میرے قبیلے کی چھ عورتیں تھیں۔ اب اور بھی آئیں گی۔ کیونکہ ہم نے کام کرنے کا مزہ چکھ لیا ہے۔ تھوڑے بہت پیسے بھی ہاتھ آئے۔ مہینے کا راشن ملتا ہے اور اپنے کمائے ہوئے پیسے لے کر جاتے ہیں۔ مجھ میں طاقت سی آ گئی ہے۔‘
اپنے کام کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ٹیرا کوٹا آرٹ آسان کام نہیں بلکہ کافی صبر آزما ہے۔ پہلے مرحلے میں مقامی مٹی کو گوندھ کر یکجان کیا جاتا ہے۔ اس کام میں دو سے تین دن لگتے ہیں۔ مٹی گوندھنا آسان کام نہیں، مرد بھی ہمارا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کے بعد مٹی کو جو شکل دینی ہو اس سانچے پر لگاتے ہیں۔
’دوسرے اہم مرحلے میں لکڑی کی بھٹی میں برتنوں کو پانچ گھنٹے پکایا جاتا ہے۔ برتنوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے پہلے آدھے گھنٹے ہلکی پھر تھوڑا تیز اور پھر مزید تیز آنچ پر پکاتے ہیں۔ پکنے کے بعد ان برتنوں کو فوراً نہیں نکالا جاتا بلکہ پوری رات ٹھنڈا کرتے ہیں۔ پہلی تہہ چاول کے آٹے کی لگتی ہے، پھر شیشے کا اور کیمیکل کی تہہ چڑھاتے ہیں۔ ہر لگائی جانے والی تہہ کے بعد ان کو آنچ لگائی جاتی ہے۔‘
ہم نے شریفہ سے ان کے اپنے بارے میں بھی بات کی۔ شریفہ نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ ’میں سات بھائیوں کی اکلوتی بہن ہوں۔ شادی رواج کے مطابق جلدی ہو گئی تھی۔ لیکن جلد ہی ختم ہو گئی۔ ایک پانچ سالہ بیٹا ہے جس کا نام جمیل ہے۔ میری کیا عمر ہے یہ نہیں پتہ، کوئی کارڈ نہیں بنا۔ کبھی ووٹ بھی نہیں ڈالا۔
’پاس ہی گورنمنٹ سکول ہے، لیکن کبھی گئے نہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ بیٹھ جاؤں لیکن مجھے شوق نہیں۔ مگر میرا بیٹا سکول جائے گا۔ مسکراتی ہوئے شریفہ نے کہا کہ لیں میرے بنائے ہوئے کپ میں میری بنائی ہوئی چائے پیں اور یہ پاپ کارن بھی کھائیں۔ یہاں آئے مہمانوں کو ہم اپنے بنائے ہوئے برتن میں ہی کھانے پیش کرتے۔ بڑا اچھا لگتا ہے جی۔
’ہم مانگنا چھوڑ چکے ہیں۔ بھیک اس ہی لیے مانگتے تھے کہ ایک وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی تھی۔ روزگار کوئی ہے نہیں اس لیے لنگر سے کھاتے۔ دو سال پہلے کی زندگی اور آج میں بہت فرق ہے۔ شکاری قبیلے کے لیے کام کرنے پر مجھے پولیس کی طرف سے انعام اور شیلڈ ملی۔ خوشی تو ہوتی ہے جی۔ ہماری کیا کوئی تفریح، ہم خانہ بدوش لوگ ہیں۔ ایک بار کراچی گئی تھی۔ ہماری تفریح تو درگاہ پر جانا ہے۔ عرس کے موقع پر لگنے والے سرکس کا مزہ لینا ہے۔ اچھے کپڑے تو بس عید کے دن پہنے تھے۔‘
ہم نے ہال میں موجود مومل شیخ سے بات کی۔ ان کا تعلق ہالہ کے کاشی گر خاندان سے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس آرٹ کی ڈگری بھی ہے۔
مومل نے بتایا کہ ’میں اور ادا فرید کاشی گر ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ مل کر ماحول کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔ ٹیرا کوٹا آرٹ کی مکلی قبرستان میں ضرورت تھی۔ اس لیے سوچا گیا کہ مقامی آبادی کو اس کے لیے تیار کیا جائے۔ ان کے لیے ایسے شیلٹر ہوم تیار کیے جو ماحول دوست ہوں۔ انہیں بیت الخلا بنا کر دیے۔ کیونکہ ان میں صفائی کا فقدان تھا۔ اس ہی لیے انہیں بنیادی صفائی اور صحت کے اصول سکھا رہے ہیں۔ ہم نے ان کو مقامی چیزوں سے ہی صابن بنانا سیکھا دیا ہے۔ جیسے ریٹھے کا صابن۔ یہ یہاں صبح آ جاتی ہیں، پہلے نہاتی دھوتی ہیں۔ پھر کام شروع کرتی ہیں۔‘
یہ خواتین کافی فعال ہیں۔ ان سے مرد بھی ڈرتے ہیں۔ کل ہی کسی مقامی لڑکے نے عورت کو چھیڑا، ان عورتوں نے اسے خوب مارا۔ ہمیں بڑے فخر سے بتایا گیا کہ لڑکوں کو مار کے آئے ہیں۔ شریفہ نے بتایا کہ انہیں مردوں کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ یہ اپنا مقابلہ خود کر سکتی ہیں۔
شریفہ نے بتایا: ’یہاں بچوں کو تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ کبھی بچے روز آتے ہیں اور کبھی نہیں بھی۔ ہم نے انہیں اجازت دی ہے کہ وہ اپنے ساتھ بچوں کو لے کرآئیں۔ یہاں آنے سے یہ فرق پڑا رہا ہے۔ اب یہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں۔‘
ہیری ٹیج فاونڈیشن کی یاسمین لاری کا کہنا ہے کہ سندھ کے قدیم شہر ٹھٹھہ کی وجہِ شہرت شاہ جہانی مسجد اور مکلی کا تاریخی قبرستان رہے ہیں، لیکن اب امید ہو چلی ہے کہ مائی شریفہ اس شہر کی نئی پہچان بنیں گی۔