ایرانی عدلیہ کے مطابق معروف فلم سازوں میں سے ایک داریوش مہرجوئی کو ہفتے کی شام ان کی اہلیہ کے سمیت تہران کے قریب ان کے گھر میں چاقو کے وار کر کے قتل کر دیا گیا۔
83 سالہ ہدایت کار ایرانی ’سینما کی پہلی لہر‘ سے وابستہ تھے، جنہوں نے 1969 میں ’دا کاؤ‘ جیسی شہرہ آفاق فلم بنائی جو اس تحریک کی پہلی فلموں میں سے ایک تھی۔
ایرانی عدلیہ کی ’میزان آن لائن‘ نیوز ایجنسی کے مطابق تہران کے قریب البرز صوبے کے چیف جسٹس حسین فاضلی ہریکندی نے کہا: ’ابتدائی تفتیش کے دوران ہم نے پایا کہ داریوش مہرجوئی اور ان کی اہلیہ وحیدہ محمدیفر کو گردن پر متعدد وار کر کے قتل کیا گیا۔‘
مقامی اخبار ’اعتماد‘ میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں فلم ساز کی اہلیہ نے کہا تھا کہ انہیں دھمکیاں دی گئی ہیں اور ان کے گھر میں چوری کرائی گئی۔
میزان آن لائن کے مطابق: ’تفتیش سے پتہ چلا کہ مہرجوئی کے آبائی گھر میں غیر قانونی داخلے اور ان کے سامان کی چوری کے حوالے سے کوئی شکایت درج نہیں کی گئی تھی۔‘
دریوش کی سب سے قابل ذکر فلموں میں ’دا کاؤ‘ کے ساتھ 1970 کی ’مسٹر گلبل، 1977 کی ’دا سائیکل‘، 1987کی ’دا ٹیننٹس‘، 1990 کی ’ہامون‘، 1993 کی ’سارہ‘، 1995 کی ’پری‘ اور 1997 کی ’لیلیٰ‘ شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مہرجوئی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان تمام فلموں کو پیرس کے فورم ’ڈی امیجز‘ میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا تھا۔
1980 اور 1985 کے دوران ایرانی فلم ساز فرانس میں رہے جہاں انہوں نے دستاویزی فلم ’جرنی ٹو دی لینڈ آف رمباڈ‘ پر کام کیا۔
ایران واپسی پر ان کی فلم ’دا ٹیننٹس‘ نے باکس آفس پر دھوم مچا دی تھی۔
1990 میں انہوں نے ’ہامون‘ کی ہدایت کاری کی جو کہ ایک ڈارک کامیڈی فلم ہے جس میں ایک دانشور کی زندگی میں طلاق کے بعد کی پریشانیوں کو دکھایا گیا۔
1990 کی دہائی کے دوران مہرجوئی نے سارہ، پری اور لیلیٰ جیسی فلموں میں خواتین کی زندگیوں کی عکاسی کی۔