عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے شمالی غزہ کو خالی کرنے کا حکم محصور پٹی کے ہسپتالوں میں زیرعلاج انکیوبیٹرز میں موجود بچوں سمیت دو ہزار سے زائد مریضوں کے لیے ’سزائے موت‘ ثابت ہو سکتا ہے۔
اسرائیل نے 42 کلومیٹر طویل علاقے میں شمالی آبادی کو حکم دیا ہے کہ وہ متوقع زمینی حملے سے پہلے جنوب کی طرف چلے جائیں، انسانی حقوق کی کچھ تنظیموں کے مطابق یہ اقدام جبری منتقلی کے جنگی جرم کے مترادف ہوسکتا ہے۔
اس حکم سے 20 لاکھ سے زائد افراد کی آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے جو پہلے ہی اسرائیل کے ’مکمل محاصرے‘ میں مشکلات کا شکار ہیں۔ یہ محاصرہ اسرائیل نے حماس کے عسکریت پسندوں کے مہلک حملے کے ردعمل میں کیا ہوا ہے جس میں ایک ہزار سے زائد افراد قتل کیے گئے تھے۔
انخلا زون میں موجود ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ مریضوں کو محفوظ طریقے سے منتقل نہیں کر سکتے تھے، لہذا انہوں نے ان کی دیکھ بھال کے لیے وہاں رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے ایک بیان میں کہا کہ ’دو ہزار سے زائد مریضوں کو جنوبی غزہ منتقل کرنے پر مجبور کرنا، جہاں صحت کی سہولیات پر پہلے ہی گنجائش سے زیادہ دباؤ ہے اور مریضوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافے کو برداشت نہیں کر سکتیں، موت کی سزا کے مترادف ہوسکتا ہے۔
’ہسپتال کے ڈائریکٹرز اور ہیلتھ ورکرز کو اب ایک تکلیف دہ انتخاب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے: بمباری کے دوران شدید بیمار مریضوں کو چھوڑ دیں، مریضوں کا علاج کرنے کے لیے وہاں رہتے ہوئے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں، یا ان کے مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتے ہوئے انہیں ان مراکز میں لے جانے کی کوشش کریں جہاں انہیں داخل کیے جانے کی گنجائش نہیں ہے۔‘
اقوام متحدہ پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ پانی ختم ہو چکا اور دو دن کے اندر ہسپتالوں میں جنریٹر کا تیل بھی ختم ہو جائے گا۔
مزید برآں، زمین پر موجود طبی عملے نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا ہے کہ زخمیوں سے بھرے ہسپتالوں میں سامان کی کمی کی وجہ سے ہزاروں افراد مر سکتے ہیں۔
دی انڈیپینڈنٹ کو غزہ شہر کے کم از کم ایک ہسپتال کی تصاویر دکھائی گئیں جو ہفتے کے روز ایک فضائی حملے میں تباہ ہو گیا تھا۔
غزہ کے سب سے بڑے الشفا ہسپتال میں میڈیسنز سانس فرنٹیئرز کے ساتھ کام کرنے والے معروف برطانوی فلسطینی سرجن غسان ابو سیتا نے کہا کہ صورتحال ’تباہ کن‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف ہسپتال خالی نہیں ہو سکے بلکہ عمارتیں عارضی طور پر بے گھر لوگوں کی رہائش گاہیں تھیں۔
انہوں نے مزید کہا، ’شفا ہسپتال کی صورتحال تباہ کن ہے۔ میں اب برنس یونٹ کے آپریٹنگ روم میں بیٹھا ہوں، کوریڈور کے فرش پر خاندان بیٹھے ہیں، سیڑھیوں سے لے کر اور عمارت کے باہر تک۔ ہمیں لگتا ہے کہ پورے ہسپتال کے آس پاس ان کے ارد گرد تقریباً ہزاروں [لوگ] ہیں۔
’200 سے زیادہ مریض ایسے ہیں جنہیں سرجری کی ضرورت ہے، لیکن وہ آپریشن روم تک نہیں جا سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مردہ خانے بھرے ہوئے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگ قبرستان جانے سے بہت ڈرتے ہیں۔ تقریباً 50 خاندان ایسے ہیں جو مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں کیونکہ لوگ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ پناہ کی تلاش میں ہیں۔
’50 خاندان ہیں جن میں دادا دادی، ان کے والدین اور ان کے بچوں کے بچوں کی تین نسلیں ہیں۔ جو مر گئے ہیں۔ اس لیے کسی کو دفن کرنے والا کوئی نہیں ہے۔‘
اسرائیلی فوج نے غزہ پر اب تک کی سب سے بڑی فضائی کارروائی کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اس نے حماس کے عسکریت پسندوں کے ’بے مثال حملے کا بے مثال جواب‘ دیا ہے۔
حماس نے گذشتہ ہفتے فضائی، بحری اور بری حملوں میں سینکڑوں افراد کو مارا اور برطانوی شہریوں سمیت درجنوں افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اب تک 1300 سے زائد اسرائیلی مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں مرنے والے عام شہریوں کی ہے۔
غزہ کی وزارت صحت نے کہا ہے کہ بمباری میں اب تک 2329 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ میں فضائی، بری اور بحری افواج کا استعمال کرتے ہوئے ایک مربوط حملے کی تیاری کر رہی ہے اور شہریوں کو جنوب کی طرف جانے کا حکم دیتے ہوئے حماس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ انہیں(شہریوں کو) انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
فوج کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیل ہاگری نے کہا کہ وہ بہت جلد ’غزہ شہر پر بہت جلد حملہ کرنے والے ہیں۔‘
اسرائیل نے بمباری کے درمیان پانی، بجلی، تیل، خوراک اور طبی سامان تک رسائی منقطع کرتے ہوئے غزہ کا ’مکمل محاصرہ‘ بھی کر رکھا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ اجتماعی سزا کے مترادف اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
اقوام متحدہ، امدادی تنظیموں اور اتوار کو پوپ فرانسس کی جانب سے محفوظ انسانی راہداریوں اور زندگیوں کو بچانے کے لیے راستے کی درخواستوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دریں اثنا، شہریوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ کھانا خوراک ختم ہو رہی ہے، ان کے پاس پانی یا بجلی نہیں ہے اور وہ باہر نہیں نکل سکتے کیونکہ ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
بہت سوں کو جنوب کی طرف جانے والے قافلوں پر فضائی حملوں کی اطلاعات پر بھی تشویش ہے، اس الزام کی اسرائیل بار بار تردید کر رہا ہے۔
پانچ بچوں کے ایک والد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’چھوڑ کر جانا بہت مشکل ہے‘ اور کہا کہ ان خاندان دو روز سے پانی یا بجلی کے بغیر اپنے گھر میں پناہ لیے ہوئے ہے۔
اس 50 سالہ شخص نے بتایا کہ ’بہت سے لوگ بے گھر ہیں، اور زمین پر سو رہے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو پناہ ہے، نہ کھانا اور نہ ہی پانی۔ لیکن میں اب بھی اپنے گھر میں ہوں... کیونکہ میرے لیے یہاں سے نکلنا مشکل ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ کس طرح فضائی حملوں نے چند دن پہلے ہی ان کے گھر کے ساتھ والی عمارت کو تباہ کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر یہ بڑھتا یا جاری رہتا ہے، تو کچھ ہی دنوں میں ہمارے پاس خوراک ختم ہو جائے گی ۔ سپر مارکیٹ میں کچھ بھی نہیں ہے، میں نے جانے اور کچھ سامان لینے کی کوشش کی، لیکن وہاں پہنچنا بھی مشکل تھا اور زیادہ تر چیزیں دستیاب نہیں ہیں۔‘
غزہ کی پٹی کے شمال میں بیت لاہیا سے تعلق رکھنے والے ایک اور 35 سالہ شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہر بیکری میں ’سینکڑوں‘ لوگ روٹی کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اب نلوں یا دکانوں میں پانی نہیں ہے۔ انہوں نے ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے کہا، ’لوگ روٹی اور پانی کی تلاش میں دکانوں کی طرف دوڑ رہے ہیں، ایک قطار میں سینکڑوں لوگ کھڑے ہیں۔
’میں دو دن سے جاگ رہا ہوں۔ شمال میں رہنے والے کم از کم ایک تہائی لوگ وہاں سے نکل گئے ہیں لیکن بہت سے لوگوں کو وہاں رہنا پڑا ہے۔‘
دی انڈیپینڈنٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ جو خاندان جنوب سے گئے تھے انہیں دوبارہ شمال کی طرف لوٹنے پر مجبور کیا گیا کیوں کہ غزہ کے جنوب میں حالات بہت خراب تھے۔
غزہ کے ایک اور رہائشی نے کہا کہ بہت سے لوگوں کو جنوب کی طرف جانے میں تشویش ہے کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ اسرائیل انہیں مصر کے سینا جانے پر مجبور کر دے گا۔
جبالیہ سے تعلق رکھنے والے احمد نے کہا کہ ’اس کے بعد پورا غزہ ہمیشہ کے لیے غزہ کے لوگوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ اس لیے ہم اپنے گھروں میں ہی رہیں گے۔‘
ڈاکٹر ابو سیتا کا کہنا تھا کہ بمباری اتنی شدید تھی کہ ’لوگ اپنے مرنے والوں کو دفنانے سے بہت ڈرتے ہیں‘ اور لاشیں بڑھ رہی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’دیوار کے ساتھ کفنوں میں لپٹی لاشوں کے ڈھیر لگے ہیں کیوں کہ مردہ خانہ بھرا ہوا ہے۔‘
© The Independent