نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جونہی انتخابی شیڈول جاری کیا، نگران حکومت آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن کمیشن کی معاونت کرتے ہوئے لازماً عام انتخابات کروائے گی اور کسی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جائے گا۔
اصولی طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو یہ آئینی حق حاصل ہے کہ وہ انتخابات میں اپنے امیدوار سامنے لائیں، کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ نو مئی کے قانون شکن واقعات کے بعد درپیش صورت حال یہ ہے کہ تحریک انصاف پر ان واقعات کی وجہ سے اب تک آئین کے آرٹیکل 17 اور الیکشن ایکٹ کی دفعہ 212 کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی اور نہ ہی آئندہ اس کا کوئی امکان اس لیے نظر آ رہا ہے کہ نگران حکومت اپنے محدود مینڈیٹ کے تحت ایسا کرنے کی مجاز نہیں ہے۔
جہاں تک تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی انتخابی عمل میں شرکت کی بات ہے تو ان کے خلاف قائم مقدمات کا فیصلہ عدالتوں کو کرنا ہے اور قانون اس معاملے میں اپنا راستہ خود بتائے گا۔
پاکستان تحریک انصاف کے آئینی ماہرین نے سائفر کیس میں آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم کو حاصل اختیارات کے تحت عدالت سے استثنیٰ مانگنے کی استدعا کی ہے۔ آئینی ماہرین نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 کے اطلاق نہ ہونے کی وجہ سے مقدمے کے اخراج کی استدعا کر دی ہے اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کی درخواست کی سماعت کا تحریری حکم جاری کر دیا ہے۔
اس کے برعکس میری رائے میں آئین کا آرٹیکل 248 اس صورت میں لاگو ہوتا ہے جب وزیراعظم اپنے عہدے پر فائز رہے۔ وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد اس نوعیت کے مقدمات عام شہری کی حیثیت کے زمرے میں آتے ہیں۔
میاں نواز شریف کو چار سال بعد وطن واپسی پر اپنے خلاف قائم مقدمات کا سامنا کرنا ہو گا۔ جس کیس میں وہ سزا یافتہ ہیں، اس میں ان کے جیل جانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ انتخابی عمل میں ان کی شرکت مقدمات میں بریت سے مشروط ہے۔
تاہم ان کی جماعت کے لیے انتخابات میں شریک ہونے میں کوئی رکاوٹ حاصل نہیں ہے۔ قانونی ماہرین کا اتفاقِ رائے یہی ہے کہ نواز شریف کی واپسی پر گرفتاری فوراً ہو گی، تاہم توقع ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نواز شریف کو ایک ہفتے کی حفاظتی ضمانت دے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان کا معاشی سفر بہتری کی طرف جا رہا ہے۔ شرح نمو 3.5 فیصد ہو گئی ہے، سٹاک ایکسچینج نے چھ سال کا ریکارڈ توڑا ہے۔ اس پیش رفت میں پاکستان کے لیے بہت اچھے مواقع ہیں۔ شرط یہ ہے کہ اس کے پالیسی ساز اور عوام کی غالب تعداد، جو نوجوانوں پر مشتمل ہے، کو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
نوجوان ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ جذباتی اور قومی وژن سے عاری ہی ہوں۔ عوام کو یہ بات ذہن نشین کرنا ہو گی کہ جمہوریت میں پارٹیاں اور لیڈر آتے جاتے رہتے ہیں۔ ملک و قوم کو مضبوط معیشت کے لیے معاشی ترقی اور سیاسی نظام میں تسلسل کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کے سیاست دان میدان میں ہیں اور ان کے لیے ایک بہترین موقع ہے وہ ماضی کے تنازعات پر نظرِثانی کریں۔ سوچیں کہ پاکستان کیسے دوسرے ممالک کی ترقی سے ہم آہنگ ہو سکتا ہے۔ ایشیا تو آگے بڑھ رہا ہے، اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جنوری کے آخری ہفتے میں عام انتخابات کروانے کے لیے سیاسی سطح پر سندھ حکومت کے اعلیٰ حکام کو 17 اکتوبر کو الیکشن کی ابتدائی تیاریوں کے حوالے سے طلب کر لیا ہے اور اگلے مرحلے پر پنجاب، بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے اعلیٰ حکام سے یہ بریفنگ لیں گے۔
میری اطلاع کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے الیکشن کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو عبور کر لیا ہے اور الیکشن کا شیڈول 30 نومبر کے بعد فوری طور پر جاری کر دیا جائے گا۔
فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔ امریکہ نے جس طرح سے کھل کر اسرائیل کی پشت پناہی کی ہے اور اپنے فوجی اثاثے اس کے حوالے کرنے کے لیے آمادہ ہے، اس سے شہ پا کر اس تنازع کا دائرہ کار سرحدوں سے باہر پھیلا کر دوسرے ملکوں تک لے جایا جا سکتا ہے۔
اگر ایسا ہوا تو اس کے عالمی معیشت پر تو خطرناک اثرات مرتب ہوں گے ہی اور اگر جنگ کے شعلے پاکستانی سرحدوں تک پہنچے اور جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا تو پاکستان میں الیکشن موخر ہو سکتے ہیں۔
اس تمام صورتِ حال میں نگران حکومت کو تمام پہلوؤں پر غور کرنا ہو گا اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔