یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
’یا تلہ خنجر مارے، نتہ سانہ شبہ روزے۔‘
ترجمہ: یا وہ خنجر سے زخمی کرے گا یا پھر میرے ساتھ شب بیداری کرے گا۔
صوفیانہ رنگ اور روحانیت سے بھرپور اس کلام کو جب عام کشمیری معروف گلوکار عبدالرشید حافظ کی آواز میں سنتے تو یقننا کسی روحانی دنیا میں پہنچ کر کھو جاتے ہیں، اس روح پرور کیفیت کو کئی لوگوں نے بارہا بیان کیا ہے۔
بقول ایک صوفی بزرگ محمد سلطان ’حافظ کی آواز میں روحانیت کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا پڑا ہے۔‘
کشمیر کی صوفیانہ گائیکی اور رشید حافظ کو ایک دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ اس کا تصور کرنا بھی ناممکن ہے۔
مگر چند ہفتے قبل اسی کلام کو جب لوگوں نے رشید حافظ اور انڈیا کی گائیکہ اسیس کور کی آواز میں بالی وڈ سٹائل میں سنا تو بیشتر کشمیری حیران ہو گئے اور سرگوشیوں میں کہنے لگے کہ رشید حافظ کو فلمی طرز پر گانے پر کس نے مجبور کیا؟
فن موسیقی سے وابستہ بعض ناقدین نے اسے کشمیری صوفیانہ موسیقی کے روایتی انداز کو ختم کرنے سے تعبیر کیا حالانکہ یہ کلام سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہوا۔
گوکہ صوفیانہ طرز پر گانے والی یہ نظم نئے اور پرکشش انداز میں پیش کی گئی ہے مگر کشمیری صوفیانہ موسیقی کے ہزاروں مداحوں نے اسے ناپسند کیا۔
بعض نے رشید حافظ پراپنے طرز انداز کو تبدیل کرنے کے پیچھے بالی وڈ میں انٹری سے جوڑ دیا۔
حافظ نے اس بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’مجھے بالی وڈ میں انٹری کی کوئی چاہت نہیں۔ موسیقی میں نئی جدت پیدا کرنا وقت کا تقاضا ہے، ردم اور دھن بدلتے رہتے ہیں، مجھے فخر ہے کہ میں نے صوفیانہ موسیقی کو نئے انداز میں پیش کرکے اسے پوری دنیا میں پہنچا دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حافظ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ محض اتفاق ہے کہ ممبئی جا کر مجھے اس کلام کو نئی دھن پر گانے کا موقع ملا۔ اس وقت موسیقی کی دنیا میں انقلاب آیا ہوا ہے، ہماری نئی نسلیں نئے تقاضوں کے مطابق موسیقی کو ترتیب دے رہی ہیں، سنتور اور تمبک ناری کی جگہ گٹار اور وائلن لے رہے ہیں، تیز دھنیں مقبول ہوتی جارہی ہیں مگر میں نے ہمیشہ کشمیر کی روایتی دھن اور طرز کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا، صوفیانہ کلام گانے کا انداز بھی تبدیل ہو رہا ہے۔‘
کشمیری موسیقی، ساز اور کلام تیزی سے بدلتے حالات اور جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اپنا انداز بدل رہے ہیں۔ چند دہائی پہلے تک کشمیر کی ثقافت پر صرف بالی وڈ کا غلبہ تھا، اب مغربی دنیا کی موسیقی اور فلمیں بھی کشمیری فنون لطیفہ پر گہرے اثرات ڈال رہی ہیں۔ اس کی شروعات معروف عالمی موسیقار زوبن مہتہ کے 2013 میں سرینگر میں آرکسٹرا یا سازینہ منعقد کرانے سے ہوئی تھی۔
معروف گائیک اور کشمیر میوزک کلب کے سربراہ وحید جیلانی کہتے ہیں کہ ’گو کہ رشید حافظ نے صوفیانہ کلام کو روایتی رنگ میں ڈالنے کی بھرپور کوشش کی ہے اور وہ اس فن کے استاد ہیں لیکن نئی کمپوزیشن میں صوفیانہ کلام کو گانے اور سازوں کا انداز وہ نہیں ہے جو ہماری روایت رہی ہے، شاید یہ نئی ادا عام کشمیریوں کو پسند نہیں آئی، کشمیر سے باہر اس کو کافی سراہا گیا ہے۔‘
اس وقت موسیقی کی دنیا میں انقلاب آیا ہوا ہے، تیز دھنیں مقبول ہوتی جارہی ہیں مگر میں نے ہمیشہ کشمیر کی روایتی دھنوں اور طرزوں کو کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔
حالیہ دنوں میں موسیقی میں دلچسپی رکھنے والے درجنوں کشمیری نوجوان انڈیا کے کئی سنگیت مقابلوں میں پیش پیش رہے ہیں۔ بالی وڈ نے کسی حد تک کشمیری نغموں اور سنگیت کو فلموں میں جگہ دی جن کی دھنیں کافی مقبول ہوئی ہیں جبکہ بعض روایتی موسیقی میں اپنا ہنر آزما رہے ہیں۔
ثقافتی اداروں کی جانب سے منعقد محفل موسیقی میں کئی صوفیانہ فنکار منظر عام پر آگئے ہیں جو اس روایت کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
روف اور چھکری کشمیری موسیقی کی مقبول اصناف ہیں، سنتور، تمبکناری، نوٹ، سارنگی، شہنائی اور رباب قدیم زمانے سے کشمیر کے پسندیدہ آلات موسیقی رہے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر ان کا اب بھی خاصا استعمال ہوتا ہے۔
چار دہائیوں پر محیط پرتشدد حالات کی وجہ سے کشمیر کی ثقافتی سرگرمیاں ماند پڑی تھیں جو اب پھر سے شروع ہو گئی ہیں۔
چند نوجوانوں نے بالی وڈ انداز میں جب ان حالات کی نشاندہی کرنا چاہی تو بیشترکو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا، یہاں تک کہ ان حالات کی عکاس تصنیفات کی تدریس پر قدغن لگائی گئی۔ اکثر شاعروں کو اپنی تخلیقات شائع کرنے سے گریز کرنا پڑا۔
کشمیر کے بارے میں بالی وڈ کی کئی فلمیں، موسیقی کے البم اور تصنیفات منظر عام پر آ رہی ہیں لیکن یہ سب اصل اور حقیقی کشمیر کی کتنی عکاس ہیں، اس کا دیانت داری سے جواب دینا مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔