فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے انڈیا میں گذشتہ دو ہفتوں سے ریلیاں نکالی جاری ہیں۔ حکام کی جانب سے منتشر کیے جانے کے باوجود مظاہرین کا خیال ہے کہ انہیں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے ردعمل میں پھر بھی سڑکوں پر نکلنا چاہیے۔
عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف انڈین دارالحکومت میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران پولیس نے تین ریلیوں کو روکا جبکہ خبر رساں ادارے کے نمائندے نے جمعے کو نکالی گئی ریلی کے دوران درجنوں مظاہرین کو گرفتار ہوتے دیکھا۔
23 اکتوبر کو اسرائیلی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کا اہتمام کرنے والے جواہر لال نہرو یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر این سائی بالاجی نے عرب نیوز کو بتایا، ’احتجاج ضروری ہے۔ اگر آپ انڈیا کی آزادی سے 200 سال پہلے کی بات کریں تو ہم اپنی لڑائی لڑ رہے تھے۔
’انڈین عوام نے برطانوی استعمار کے خلاف جنگ لڑی اور ہمیں آزادی ملی۔ ہم فلسطینیوں کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔‘
1947 میں برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی سے آزادی سے قبل بھی فلسطین کی حمایت انڈیا کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم حصہ تھی۔ فلسطین 1920 سے 1948 تک برطانوی حکومت کے ماتحت رہا۔
اسرائیل کے قیام سے کئی سال قبل انڈیا کی تحریک آزادی کے رہنما مہاتما گاندھی نے فلسطین میں یہودی قومی ریاست کی مخالفت کی اور اسے غیر انسانی قرار دیا تھا۔
نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ویسٹ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر اے کے رام کرشنن نے عرب نیوز کو بتایا، ’مہاتما گاندھی نے مختلف اوقات میں اس سوال پر خیالات کا اظہار کیا تھا، بالخصوص اس وقت جب 20 ویں صدی کے پہلے نصف حصے میں یورپ سے فلسطین کی طرف یہودیوں کی بہت بڑی نقل مکانی ہوئی تھی، جس کا نتیجہ بعد میں 1948 میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کی صورت میں نکلا۔‘
انہوں نے 1938 میں ’ہریجن‘ میگزین کو دیے گئے گاندھی کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’انہوں (گاندھی) نے کہا کہ فلسطین بالکل ایسے ہی عربوں کا ہے جیسے انگلستان انگریزوں کا ہے اور فرانس فرانسیسیوں کا۔ اور یہ حمایت بہت اہم تھی، حالانکہ یہودی برادری اور عالمی صہیونی تنظیم کی طرف سے ان پر زبردست دباؤ تھا کہ وہ فلسطین میں یہودی ہجرت اور ان کے ایجنڈے کی حمایت میں ایک بیان جاری کریں۔‘
ہندوستان کے دیگر آزادی پسند رہنماؤں کا موقف بھی ان سے مختلف نہ تھا۔ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو ناوابستہ تحریک کے حامی تھے تاہم ان کی انتظامیہ نے آخر کار اسرائیل کو تسلیم کیا۔
رام کرشنن نے کہا، ’آزادی کے بعد، ان کی قیادت میں انڈین حکومت نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کیا، لیکن کوئی مکمل تعلق نہیں بنا۔
نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی، جو 1966 میں انڈیا کی تیسری وزیراعظم بنیں، کے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے رہنما یاسر عرفات کے ساتھ قریبی تعلقات تھے، جو اکثر انہیں اپنی ’بڑی بہن‘ کہتے تھے۔
جے این یو کے سینٹر فار پولیٹیکل سٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عامر علی نے کہا، ’یہ اس چیز کی واضح مثال ہے کہ اس وقت تعلقات کتنے خوشگوار تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’1970 اور 1980 کی دہائی میں ہزاروں فلسطینیوں نے انڈین یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی اور انڈین معاشرے نے ان کا خیرمقدم کیا تھا۔‘
علی نے مزید کہا، ’عرب دنیا کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ سے بہت اچھے رہے ہیں،‘ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے انڈیا کی سرکاری پالیسی میں واضح تبدیلی کے باوجود یہ اب بھی برقرار ہیں۔
تاہم علی کے مطابق یہ تبدیلی مودی کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے سے چل رہی تھی۔
علی نے کہا، ’میرے خیال میں سب سے بڑی تبدیلی 1990 کی دہائی میں لبرلائزیشن کے ساتھ ہوئی۔ 1992 میں ہمارے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ اس کے بعد سے انڈیا نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اپنی پالیسی کو متوازن کرنے کی کوشش کی ہے۔‘
نئی دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سینٹر فار ویسٹ ایشین سٹڈیز کی پروفیسر سجاتا ایشوریا نے کہا، ’2014 کے بعد سے انڈیا کے موقف میں واضح تبدیلی آئی ہے، پھر بھی انڈیا امریکہ جتنا آگے نہیں بڑھا جس نے 2017 میں مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا تھا، اب وہ مشرقی مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا ہے۔
غزہ سے تعلق رکھنے والے گروپ حماس کے حملے کے بعد جب اسرائیل نے سات اکتوبر کو غزہ پر روزانہ بمباری شروع کی تو مودی نے ابتدائی طور پر اسرائیل کی حمایت کر کے تنازع کھڑا کردیا۔
انہوں نے سوشل میڈیا پر کہا کہ انہیں اس ’دہشت گردانہ‘ حملے سے صدمہ ہوااور انڈیا ’یکجہتی میں اسرائیل کے ساتھ‘ کھڑا ہے۔
اس کے دو روز بعد انڈین وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ ’انڈیا نے ہمیشہ فلسطین کی ایک خودمختار، آزاد اور قابل عمل ریاست کے قیام کے لیے مذاکرات‘ کی وکالت کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن مودی کی اس پوسٹ نے واضح طور پر اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی۔ نئی دہلی میں سفیر نور گیلون نے گذشتہ ہفتے نامہ نگاروں کو بتایا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انڈیا حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کے طور پر تسلیم کرے، یہ وہ معاملہ ہے جو انہوں نے حکومت کے سامنے اٹھایا تھا۔
آشوریہ نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پراسرائیل کے رویے کو دیکھتے ہوئے سفیر کی انڈین حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش پر انہیں حیرت نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا، ’جب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ خطے میں ہونے والے تمام تشدد کے پیچھے سیاق و سباق ہے تو اسرائیل نے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔
’اسرائیل کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں کیونکہ فوجی اور معاشی طاقت رکھنے والی پوری مغربی دنیا اسرائیل کے پیچھے کھڑی ہے۔ اسرائیل کے پاس جرات ہے کیونکہ اسے مغربی دنیا میں سب کی حمایت حاصل ہے۔‘
آشوریا کے مطابق اسرائیلی سفیر کو جو بات یاد آئی وہ یہ تھی کہ مودی کی پوسٹ میں لفظ ’دہشت گرد‘ حماس کے بجائے حملے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا، ’ان کا مطلب حماس سے نہیں تھا... انڈیا کی پالیسی میں حماس کو اب بھی دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھا جاتا۔ جہاں تک خارجہ پالیسی کے بارے میں میری سمجھ ہے، انڈیا اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھائے گا۔ مستقبل قریب میں تو نہیں۔‘
نوئیڈا کی ایمیٹی یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر آشوتوش سنگھ نے کہا کہ اس طرح کا کوئی بھی اقدام انڈیا کے لیے باعث مسئلہ ہوگا۔
انہوں نے 20 ویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک ہیرو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم کہنا ہندوستانیوں کے لیے بہت سارے سوالات پیدا کرے گا: کیا آپ بھگت سنگھ کو دہشت گرد کہیں گے؟‘ وہ ہندوستان میں برطانوی حکمرانی کے سخت ناقد اور برطانوی حکام پر دو ہائی پروفائل حملوں میں ملوث تھے، جبکہ برطانیہ نے انہیں دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا، ’حتیٰ کہ جو لوگ حماس کے نظریے پر یقین نہیں رکھتے وہ بھی انہیں دہشت گرد نہیں کہتے۔ وہ انہیں عسکریت پسند کہتے ہیں، وہ آزادی کے سپاہی ہیں۔ اگرچہ ہم ان کی حمایت نہیں کرتے لیکن ہم ان کی کبھی مذمت نہیں کریں گے کیونکہ وہ مجاہدین آزادی ہیں۔‘