کراچی کے رہائشی علاقے کے ڈی اے سکیم 33 میں قائم افغان بستی میں مقیم افغان شہری حکومت پاکستان کی غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن کے انخلا کے لیے دی گئی مہلت ختم ہونے پر اپنی واپسی کی تیاری کر رہے ہیں، بس اڈوں پر رش بڑھ گیا ہے اور نوجوان نسل کو اپنے مستقبل کی فکر نے پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے سب سے پہلے کے ڈی اے سکیم 33 کا رخ کیا جہاں بہت سے افغان باشندے اپنی دستاویزات جمع کرانے میں مصروف تھے۔
علاقے میں دو ڈیسک قائم کیے گئے ہیں جہاں وہ اپنے کارڈ لے کر پہنچ رہے تھے ساتھ ہی ایک فارم بھی جمع کر رہے تھے جس پر ان کے خاندان کی تفصیلات درج تھیں۔
وہیں قطار میں لگے ایک افغان پناہ گزین صاحب خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’میں 40 سال سے پاکستان میں مقیم ہوں یہاں میرا گھر بار ہے میں ہزار روپے دھاڑی پر مزدوری کرتا ہوں، لیکن جب سے حکومت نے ہمیں ملک بدر کرنے کا فیصلہ لیا ہے تو ہماری پریشانی بڑھ گئی ہے کیوں کہ اس وقت افغانستان میں شدید ٹھنڈ پڑ رہی ہے ہمارے پاس وہاں کوئی چھت نہیں ہے ہمارا کیا ہوگا ہمیں نہیں معلوم بس اتنا معلوم ہے کہ ہم چور ڈاکو نہیں ہیں اب ہم ڈرے ہوئے ہیں کہ یکم نومبر کو کیا ہوگا۔‘
ہم طالب علم ہیں ہمارا مستقبل افغانستان جانے کے بعد ختم ہو جائے گا: افغان طالب علم
سہراب گوٹھ بس ا ڈے پر افغان مہاجرین کا رش تھا سب اپنے اپنے ساز و سامان کے ساتھ وطن واپسی کے لیے بسوں کے انتظار میں تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں دو ماہ کی بچی سے لے کر معمر افغان باشندوں تک سب موجود تھے۔ اسی مقام پر 17 برس کا طالب علم طفیل (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ ایک طالب علم ہیں جو پاکستان میں صرف اور صرف تعلیم کے حصول کے لیے ہی مقیم تھے۔ ’لیکن اب میرا مستقبل خطرے میں ہے۔‘
افغان نوجوان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ہم پر اتنی سختی کیوں کر رہا ہے ہم تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اس طرح جبر سے ملک بدر کرنا ہمارے ساتھ ظلم ہے ایسا نہ کیا جائے۔‘
نجیبہ بھی افغان باشندوں میں سے ہیں جو اپنے بچوں اور سامان کے ساتھ ایک پلاٹ میں بیٹھی اپنی بس کا انتظار کر رہی تھیں۔
انہوں نے افغانستان واپسی کی تیاری تو کرلی لیکن انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں طالبان کا خوف ہے یہاں میرے شوہر کا کاروبار تھا اور 20 سال سے ہم پاکستان میں مقیم تھے ہمیں وطن واپسی کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ حکومتی اعلان کے بعد ہم بہت پریشان ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ پریشانی واپس جانے کے بعد اٹھانی پڑے گی کیوں کہ گھر کاروبار کچھ نہیں ہوگا۔‘
نجیبہ نے بتایا کہ ’ان کی بہن بھی نو ماہ کی حاملہ ہے، تین دن کے تھکا دینے والے سفر میں پتہ نہیں اس کی کیا حالت ہو گی حکومت ہمیں کچھ مہلت دے دیتی کیوں کہ افغانستان کی سردی سے ہم اور ہمارے بچے ٹھٹھر جائیں گے۔
واپسی کے لیے تیارہیں لیکن مزید مہلت دی جائے: افغان پناہ گزین
افغان پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے پاکستان میں سرگرم غیر سرکاری تنظیم کے چیئرمین عبداللہ شاہ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جنوری سے گرفتاری جاری ہے افغان باشندوں کی جس میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان وطن واپسی جا چکے ہیں، پورے سندھ میں اب 12 سے 13 ہزار افغان رہ گئے ہیں، جس میں روزانہ کی بنیاد پر دو ہزار مہاجرین واپس جا رہے ہیں۔ جبکہ کار ڈ ہولڈر افراد بھی پریشان ہیں اور وہ واپسی کی تیاری میں مصروف ہیں۔‘
انہوں نے حکومت پاکستان سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں تین سے چار ماہ کی مزید مہلت دی جائے کیوں کہ افغانستان میں موسم نا قابل برداشت ہے، افغان مہاجرین نے جب ہجرت کر کے پاکستان کا رخ کیا تھا اپنی ناموس کے لیے کیا تھا ہم اپنی عزت کی خاطر پاکستان میں آئے تھے لیکن ہماری عورتیں آج رسوا ہورہی ہیں بچے تعلیم سے محروم ہو رہے ہیں ہم مرنا پسند کریں گے لیکن عزت گنوانا منظور نہیں۔ ہم وطن واپسی کے لیے تیار ہیں لیکن ہمیں مہلت دی جائے۔‘
دوسری جانب 28 اکتوبر 2023 کو نگران وزیر داخلہ سندھ حارث نواز کی زیرصدارت تارکین وطن کی واپسی کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ یکم نومبر سے وطن واپسی کا عمل شروع کر دیا جائے گا، غیر قانونی تارکین وطن کے لیے حاجی کیمپ کراچی، جیکب آباد، حیدرآباد اضلاع میں ہولڈنگ کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔
حارث نواز نے کہا کہ ان کیمپوں میں فول پروف سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے گا، پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے واپس جانے والے قافلوں اور ہولڈنگ سینٹرز کی سکیورٹی یقینی بنائیں گے، وطن واپسی کے منصوبے کے تحت صوبائی، ڈویژنل اور ضلعی سطح پر کنٹرول روم قائم کیے جارہے ہیں۔
ان کے مطابق کنٹرول رومز میں پولیس، نادرا، ایف آئی اے اور سپیشل برانچ کے نمائندے ذمہ داریاں انجام دیں گے، کراچی میں حاجی کیمپ ہولڈنگ سینٹر پر ایف آئی اے اور نادرا پولیس کی مدد سے تارکین وطن کے ڈیٹابیس کو حتمی شکل دیں گے۔
حارث نواز نے مزید کہا کہ کمشنر کراچی بطور فوکل پرسن تارکین وطن کی ٹرین کے ذریعے وطن واپسی کے لیے وفاقی حکومت سے رابطے کو ممکن بنائیں گے۔
’بیس کیمپ میں تمام غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کولے کرآئیں گے، جبکہ یکم نومبر سے ہم سخت ایکشن لیں گے۔ ہمارے پاس تمام لسٹیں ہیں کہ کس علاقے میں کتنے لوگ ہیں، ہماری پوری تیاری ہے کہ کس شہرمیں انہیں کہاں جمع کرنا ہے، تمام غیرقانونی تارکین وطن کو عزت کے ساتھ واپس بھیجیں گے۔‘
حارث نوازنے کہا کہ یکم نومبرکے بعدان کی جائیدادیں، بینک اکاؤنٹس سب ضبط ہوجائیں گے، نومبر کی ڈیڈ لائن کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کی بے دخلی کے معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔