الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جمعرات کو جاری بیان میں اعلان کیا ہے کہ صدر پاکستان عارف علوی سے ملاقات کے بعد ’متفقہ طور فیصلہ کیا گیا ہے کہ عام انتخابات آٹھ فروری‘ کو منعقد ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’آج چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سرابرہی میں اراکین الیکشن کمیشن نے صدر پاکستان سے ایوان صدر میں الیکشن کی تاریخ کے سلسلے میں ملاقات کی۔‘
ایوان صدر نے بھی جمعرات کو جاری بیان میں تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور صدر مملکت کی ملاقات میں تفصیلی بحث کے بعد اجلاس میں متفقہ طور پر ملک میں عام انتخابات آٹھ فروری 2024 کو کرانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔‘
اس سے قبل سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جمعرات کو حکم دیا تھا کہ وہ 11 فروری 2024 کو عام انتخابات کی مجوزہ تاریخ پر آج ہی صدر مملکت عارف علوی سے مشاورت کرے کہ تاریخ طے کرے۔
جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 90 روز میں الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے کیس کی سماعت کی۔ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس امین الدین خان شامل تھے۔
چیف جسٹس نے جمعرات کو ہونے والی سماعت کے بعد مختصر حکم نامے میں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے کہا کہ وہ صدر علوی اور کمیشن کے درمیان ملاقات میں طے کرنے میں معاونت کرے۔
حکم نامے میں کہا گیا کہ عدالت توقع کرتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا تعین کر لیا جائے گا اور جمعے کو عدالت کو اس بارے میں آگاہ کر دیا جائے گا۔
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ 30 نومبر تک حلقہ بندیاں مکمل ہو جائیں گی اور عام انتخابات 11 فروری 2024 کو ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو مزید بتایا کہ ’تین سے پانچ دن حتمی فہرستوں میں لگیں گے، پانچ دسمبر کو حتمی فہرستیں مکمل ہو جائیں گی، پانچ دسمبر سے 54 دن گنیں تو 29 جنوری بنتی ہے، 29 جنوری کو حلقہ بندیوں سمیت تمام انتظامات مکمل ہو جائیں گے۔ انتخابات میں عوام کی آسانی کے لیے اتوار (کا دن) ڈھونڈ رہے تھے۔ چار فروری کو پہلا اتوار بنتا ہے جبکہ دوسرا اتوار 11 فروری کو بنتا ہے، ہم نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ 11 فروری والے اتوار کو الیکشن کروائے جائیں۔‘
جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’آئین کے مطابق الیکشن کی تاریخ کا تقرر صدر پاکستان کرتے ہیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کو صدر پاکستان سے آج ہی انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر مشاورت کی ہدایت کر دی۔
اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سات نومبر کو 90 دن پورے ہو رہے ہیں، وقت گزر رہا ہے۔‘ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ ’آئینی بحران کا پتہ نہیں، الیکشن کمیشن تاریخ کا اعلان کردے تو قومی بحران ختم ہوسکتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدالت یہ قرار دے کہ صدر نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے؟ اس پر جسٹس اطہر من اللہ ریمارکس دیے کہ ’آئین کی خلاف ورزی صدر کرے یا الیکشن کمیشن، آرٹیکل 6 لگتا ہے۔ صدر انتخابات کی تاریخ دینے کی ذمہ داری ادا کریں، الیکشن کمیشن کا صدر کے ساتھ مشاورت سے انکار آئین کی خلاف ورزی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چیف جسٹس نے سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 248 کو بھی مدنظر رکھیں، صدر نے تو صرف ایک خط میں گنتی پوری کرکے لکھ دی، صدر مملکت کی تو گنتی بہت اچھی ہے لیکن انہوں نے تاریخ نہیں دی، الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ سیکشن 57 کے تحت اب تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ہمیں صدر کے دفتر کا بہت احترام ہے۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ ’صدر کے پاس اختیار تھا تو انہوں نے تاریخ کیوں نہیں دی، سوال یہ ہے کہ صدر مملکت نے تاریخ کیوں نہیں دی، اگر آپ کو حق ہو تو اس فیصلے کو کیسے لکھیں گے، میں فیصلے میں لکھوں گا کہ 54 دنوں کا شیڈول سامنے رکھتے ہوئے صدر تاریخ دیں، اگر ایسے آرڈر کی خلاف ورزی ہو تو کیا ہم صدر کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر سکتے ہیں؟ صدر مملکت تو کہیں گے کہ ہمیں آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہے۔ میری رائے میں ابھی تک آئینی خلاف ورزی نہیں ہوئی، سات نومبر کی تاریخ گزرنے کے بعد آئین کی خلاف ورزی کی بات ہو گی، ہم کوشش کریں گے کہ آج ہی کیس مکمل کر لیں۔‘
وکیل عابد زبیری نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا آئین کا آرٹیکل 48(5) غیرموثر ہوچکا ہے؟ عابد زبیری نے جواباً کہا کہ ’الیکشن ایکٹ میں ترمیم بھی آئین کے تابع ہی ہے۔‘
سپریم کورٹ نے صدر مملکت اور چیف الیکشن کمشنر کے مابین مشاورت کے انتظار میں سماعت میں وقفہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم جواب کا انتظار کر لیتے ہیں صدر مملکت بھی پاکستانی ہے۔ صدر مملکت اور الیکشن کمیشن آپس میں بات کریں۔' پھر چیف جسٹس نے درخواست زار وکلا سے استفسار کیا کہ کسی کو اعتراض ہے اگر الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کریں؟
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ ’ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔‘ اٹارنی جنرل پاکستان نے بھی کہا کہ ’ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔‘
پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک نے بھی کہا کہ ’چیف الیکشن کمشنر صدر کے ساتھ لازمی ملاقات کریں۔‘
اس موقعے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ایک مرتبہ مشاورت کے بعد تاریخ آ جائے۔ حلقہ بندیوں کا عمل بھی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جس کی ذمہ داری ہے وہ پوری کریں۔ انتخابات کب ہونے ہیں، یہ فیصلہ آئینی کھلاڑیوں نے کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات ہو جائیں۔
’ہم ایک تنازع کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سب کو انتخابات چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ادارے ترقی کریں۔ پارلیمنٹ اپنا کام کرے۔ صدر مملکت اپنا کام کرے۔ کمیشن اپنا کام کرے۔ ہر ملک کو آگے جانا ہوتا ہے۔ مہذب معاشروں میں بات چیت سے فیصلے ہوتے ہیں۔‘
وقفے کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل شہریار سواتی نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کسی آئینی بحث میں جائے بغیر صدر مملکت سے مشاورت کے لیے تیار ہے۔ ’11 فروری کو انتخابات کی تاریخ پر صدر مملکت سے مشاورت کی جائے گی۔‘
عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت دی کہ ’آج ہی صدر مملکت سے مشاورت کریں، اگر صدر نہ بلائیں تو خود جا کر دروازہ کھٹکھٹائیں۔ سیاسی جماعتوں یا ان کے وکلا کو صدر سے ملاقات میں مت لے جایا جائے۔ صدر مملکت اور الیکشن ملاقات کے لیے اٹارنی جنرل اپنی خدمات پیش کریں۔ صدر کے ملٹری سیکریٹری بھی ہوں گے۔‘
مزید کہا گیا: ’عدالت چاہتی ہے کہ معاملہ حل ہو، کیس کو نہیں چلانا چاہ رہے۔ مشاورت کے بعد تاریخ کے ساتھ آئیں، ہم حکم نہیں دیں گے۔ کسی بحث میں نہیں پڑھنا چاہتے۔ جو بھی تاریخ دیں اس پر تبدیلی نہیں ہو گی۔ کسی بھی حالات میں انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی درخواست نہیں لیں گے۔ ہم صدر اور الیکشن کمیشن کے اختیارات نہیں لے رہے۔‘
اس کے ساتھ ہی کیس کی مزید سماعت کل (تین نومبر) تک ملتوی کردی گئی۔