مسلم لیگ ن اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کی قیادت کے درمیان منگل کو لاہور میں ہونے والی ملاقات میں دونوں سیاسی جماعتوں میں اتحاد کا اعلان کیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کے وفد نے منگل کو لاہور میں میاں نواز شریف کی قیادت میں ن لیگ کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اور میڈیا سے گفتگو میں اس سیاسی اتحاد کا باقاعدہ اعلان کر دیا گیا ہے۔
پاکستان میں آئندہ عام انتخابات کا آٹھ فروری کو اعلان ہونے کے بعد سیاسی منظرنامے پر یہ بڑی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے مشترکہ گفتگو میں ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ ’ایم کیو ایم سے 2013 کے انتخاب میں 10 نشستیں چھینی گئیں۔ ہماری 2013 کے انتخاب میں 20 میں سے 17 نشستیں تھیں اب ہم اپنی کھوئی ہوئی نشستیں واپس لیں گے۔‘
انہوں نے اعلان کیا کہ ’2024 کے عام انتخابات میں ن لیگ کے ساتھ مل کر الیکشن لڑیں گے۔ ملکی مسائل کا حل تمام جماعتوں کے ساتھ مل کر چلنے سے ہی ہو گا، کراچی میں پانچ فیصد ووٹ رکھنے والوں کو میئر بنانے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔‘
ن لیگ کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ’اگرچہ ایم کیو ایم کا وفد آج نواز شریف کی دعوت پر ملاقات کو آیا تھا لیکن آئندہ انتخاب میں اتحاد کا فیصلہ ڈیڑھ سال پہلے ہی ہو چکا تھا۔ پی ڈی ایم کی حکومت بناتے وقت ایک چارٹر پر بھی دستخط کیے تھے اسی کے تحت آگے بڑھ رہے ہیں۔‘
پیپلزپارٹی کا ردعمل
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین نے منگل کو گھوٹکی میں ایک اجتماع سے خطاب میں کہا کہ ان کی جماعت اپنے سیاسی فلسفے پر کاربند رہے گی اور سیاسی مخالفین جیسے چاہیں الیکشن لڑ لیں۔
انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم میں سیاسی اتحاد کا ذکر کیے بغیر کہا کہ ’جو مخالفین الیکشن میں آ رہے ہیں، ہمارے خلاف کھڑے ہوں گے ان کو بسمہ اللہ۔ آئیں کھڑے ہوں ہم آپ کو ویلکم کرتے ہیں۔ جمہوریت ہو گی اور مقابلہ ہو گا تو تب ہی بہترین نتائج سامنے آئیں گے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے تجزیہ کاروں کی گفتگو کے مطابق انتخابات میں سیاسی اتحاد تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہیں لیکن اس بار جس طرح ملک کی زیادہ سیاسی جماعتوں کی مشترکہ حکومت بنی اب نئے اتحاد بھی اسی کا شاخسانہ دکھائی دیتے ہیں۔ لہذا یہ ظاہر ہورہا ہے کہ ملک میں آئندہ الیکشن میں بھی کسی ایک جماعت کا حکومت بنانا مشکل ہے۔
اتحاد کراچی میں ایم کیو ایم کے لیے کتنا مفید؟
کراچی سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی و تجزیہ کار ندیم رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایم کیو ایم کو جو عروج ماضی میں حاصل رہا وہ 2013 کے انتخابات اور حالیہ بلدیاتی انتخاب میں دکھائی نہیں دیا۔ اسی لیے ایم کیو ایم نے ن لیگ سے اتحاد کر کے کراچی میں پنجابی ووٹ ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے۔‘
’پیپلز پارٹی بھی کیونکہ سندھ اور کراچی کی حکمران جماعت ہے اس لیے ایم کیو ایم کو ان سے اتحاد کر کے کچھ نہیں ملنا تھا۔ متحدہ نے 2018 میں پی ٹی آئی سے بھی اسی لیے اتحاد کیا تھا حالانکہ پی ٹی آئی نے ہی ایم کیو ایم کی نشستیں جیتی تھیں۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں جماعتوں کے اتحاد سے سیاسی طور پر تو دونوں کو ہی فائدہ ہوگا۔ کیونکہ ن لیگ سندھ میں اتنی مضبوط نہیں رہی اب ایم کیو ایم سے ہاتھ ملا کر شاید وہاں سے جیتی گئی نشستوں سے حکومت سازی آسان ہوجائے گی۔‘
’ایم کیو ایم بھی اب وہاں اتنی مضبوط نہیں لہذا ن لیگ جیسی وفاقی جماعت کے ساتھ جڑ کر کراچی میں اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے ساتھ وہاں نشستوں کی تعداد میں بھی اضافہ کر سکتی ہے۔‘
سلمان غنی کے مطابق ’بظاہر لگتا ہے کہ ایم کیو ایم کو ن لیگ نے کراچی میں پی ٹی آئی کاووٹ بینک توڑنے کے لیے ساتھ ملایا اور پیپلز پارٹی سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش بھی ہے۔‘
اتحاد سے پیپلز پارٹی کو چیلنج دیا گیا؟
ن لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق نے صحافیوں سے گفتگو میں واضح کیا کہ ’ہماری قیادت پیپلز پارٹی سمیت اتحادی حکومت میں شامل جے یو آئی و دیگر جماعتوں سے بھی رابطے میں ہے۔ ہم نے جس رواداری کی سیاست کی بنیاد رکھی ہے اس کو نقصان پہنچائے بغیر سیاست کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس اتحاد کے بعد مسلم لیگ فنگشنل یا دیگر سے بات چیت کرنے کے ساتھ زرداری صاحب اور مولانا صاحب سے بھی بات چیت کی جائے گی تاکہ جو ہم نے طے کیا تھا کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے جو اصول طے کیے گئے ہیں ان کے مطابق ہی الیکشن لڑا جائے۔‘
سلمان غنی نے کہا کہ ’کراچی میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کا اتحاد پیپلز پارٹی کے لیے بھی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ اس لیے ایم کیو ایم کے ن لیگ سے اتحاد پر پیپلز پارٹی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ویسے بھی متحدہ اور پیپلز پارٹی میں تو اتحاد ہونا ممکن نہیں لہذا دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے سے چھوٹی جماعتوں کے تعلقات کو اہمیت دیں گی۔‘
ان کے خیال میں ’ابھی تو یہ پہلا اتحاد ہے ابھی تو دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کے مزید اتحاد بھی سامنے آئیں گے۔ پنجاب سے مسلم لیگ ق، ٹی ایل پی، جماعت اسلامی، استحکام پاکستان، کے پی کے سے جے یو آئی، پی ٹی آئی پارلیمنٹرین، جماعت اسلامی، اے این پی نے بھی کسی بڑی جماعت سے اتحاد کرنا ہے۔ بلوچستان میں بھی چھوٹی جماعتوں کا الائنس ہو گا۔‘
ندیم رضا نے کہا کہ ’ن لیگ اور پیپلز پارٹی بنیادی طور پر دونوں چھوٹی جماعتوں کو ساتھ ملا کر وفاق میں حکومت کی جدوجہد کر رہی ہیں۔ لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ تحریک انصاف جو سابق حکمران جماعت ہے اس کے ووٹ بینک کو کس طرح اپنے ساتھ ملاتے ہیں۔ اس کے لیے دونوں جماعتیں چھوٹی پارٹیوں کو اپنے ساتھ ملانے میں سنجیدہ ہیں۔‘
’یہ کہنا غلط نہیں ہوگا اس بار پہلے سے زیادہ صوبائی جماعتوں کا اتحاد اہمیت اختیار کر گیا ہے۔‘