جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے فلسطین کے موضوع پر کی جانے والی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’ہم نے مطالبہ کیا تھا او آئی سی کا سربراہی اجلاس بلایا جائے، ہم سعودی عرب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے اجلاس طلب کر لیا ہے۔ لیکن میں یہ چاہوں گا کہ حماس کے نمائندوں کو بھی مبصر کے طور پر اجلاس میں بلایا جائے، حماس کا بھی یہی مطالبہ ہے، کیونکہ ان کا موقف سنے بغیر یہ اجلاس اپنے ایجنڈے کے حوالے سے مکمل نہیں ہو سکے گا۔‘
غزہ پر اسرائیل کی جانب سے جاری جارحیت پر جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے ملاقات کی۔
انڈپینڈنٹ اردو کے سوال میں جب سے پوچھا گیا کہ مولانا فضل الرحمٰن کی قطر میں حماس کے رہنماؤں سے ملاقات میں کیا بات ہوئی اور کیا حماس کی پاکستان سے کوئی توقعات ہیں؟
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’حماس نے پاکستان کے موقف کو جرات مندانہ کہا ہے اور کہا ہے کہ بطور ایٹمی قوت پاکستان اسلامی دنیا کی قیادت کرے۔ پاکستان نے جو فلسطین کے لیے موقف رکھا ہوا ہے اس سے ان کو بہت ڈھارس ہوئی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ ’فلسطین پر پاکستان کا موقف قیام پاکستان سے پہلے اور بعد ایک ہی رہا ہے کہ فلسطین کو دو ریاستی تصور کے ساتھ ہم قبول نہیں کر سکتے کیونکہ یہ سرزمین فلسطین کی ہے۔ بانیِ پاکستان نے فسلطین کی حمایت کی اور اسے قرارداد مقاصد کا بھی حصہ بنایا کہ فلسطین کی زمین کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے پر کہا کہ ’فلسطین حالت جنگ میں ہے اور حالت جنگ میں وہ بیرونی دنیا کو بتائے بغیر حملہ کر سکتے ہیں۔ لیکن تعجب امریکہ پہ ہے جو اپنی فوج اسرائیل کے حق میں لے آیا ہے۔
’برطانیہ بھی اپنی فوج اسرائیل کے حق میں لے آیا اور ساتھ دیگر یورپی ممالک بھی لے آئے ہیں۔ لیکن ہو کیا رہا ہے کہ وہ حماس کے جنگجوؤں، ان کے فوجیوں کے ساتھ جنگ نہیں لڑ رہے بلکہ وہ براہ راست غزہ پر بمباری کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہسپتالوں بچوں اور عام آبادی پر حملہ کرنا جنگ نہیں ہے بلکہ یہ جنگی جرائم میں آتا ہے اس لیے دنیا کو اس پر نوٹس لینا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسلامی ممالک فلسطین کے ساتھ اس طرح نہیں کھڑے جیسے مغربی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں انہیں اسلحہ اور فوجی دے رہے ہیں۔ تو کیا وہ ابھی بھی انسانی حقوق کے مخافظ تصور کیے جائیں گے؟ کیا اسرائیل کو یاد نہیں کہ نازی قوتوں نے ان کا کیا حال کیا تھا کیا وہ اس کا بدلہ مسلمانوں سے لے رہے ہیں اگر اسرائیل میں اتنی حمت ہے تو انہی سے بدلہ لیں جنہوں نے ان کا ہولو کاسٹ کیا۔‘
اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ’دنیا سوچ رہی تھی کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے اور اس حوالے سے لابنگ چل رہی تھی۔ وہ خواب اب بکھر چکا ہے۔ اب دنیا کو نئے زاویے سے سوچنا ہو گا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا خطے کے قیام امن کو متاثر کرنا ہے۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، انہی کا رہے گا۔‘
انہوں نے کہا، ’فلسطین کے حق میں پوری دنیا میں بہت بڑے مظاہرے ہوئے ہیں اب عالمی طاقتوں کو عوام کی رائے کا احترام کرنا ہو گا۔ تعجب ہے انڈیا کے میڈیا کو فلسطین کے حق جلسوں پر کیا مسئلہ ہے۔ اگر اپنی سرزمین کو حاصل کرنے کی جدوجہد دہشت گردی ہے تو پھر انڈیا گاندھی جی کی جدوجہد کو کیا نام دیں گے جو انہوں نے برصغیر میں کی تھی؟ آج مودی جی کو کیا ہو گیا ہے؟‘