یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سکیورٹی خدشات کے لیے عدالت کا مقام تبدیل کیا گیا ہو۔ اس کی مثالیں موجود ہیں تاہم دور حاضر میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے لیے پہلے اٹک جیل عدالت بنی اور اب اڈیالہ جیل میں کمرہ عدالت بنایا گیا ہے۔
سماعت ان کیمرہ ہونے کی وجہ سے صرف سرکاری حکام، عدالتی حکام اور وکلا کو اجازت ہے۔ یہ کمرہ عدالت دیکھنے میں کیسا ہے انڈپینڈنٹ اردو نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔
وکیل استغاثہ شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ کمرہ جیل کے اندر نہیں ہے بلکہ اڈیالہ جیل کے ایڈمن بلاک میں ہے۔ جبکہ اس کمرے کا ایک حصہ جیل سے متصل ہے۔ ایک مناسب سائز کا کمرہ ہے جس میں کمرے کا بڑا حصہ عدالت کے لیے مختص ہے جبکہ جیل کی جانب کھلنے والے راستے کی طرف کمرے کے درمیان میں جالی لگا کر الگ چھوٹا حصہ بنایا گیا ہے جس سے آر پار دیکھا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’وکلا استغاثہ اور عدالتی عملہ ایڈمن بلاک سے کمرے میں داخل ہوتے ہیں جبکہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی جیل کے اندر سے اس کمرے میں جالی کے اس پار آ کر کرسیوں پر بیٹھتے ہیں۔
’عمومی طور عمران خان ٹریک سوٹ میں ملبوس ہوتے ہیں اور شاہ محمود قریشی شلوار قمیض پہنے ہوتے ہیں۔
گذشتہ سماعت کے دوران بھی عمران خان نے جج صاحب سے کہا کہ ’آپ کے حکم پر میری میرے بچوں سے بات کروائی گئی جس کا میں بہت مشکور ہوں لیکن دوبارہ بات نہیں کرائی جا رہی‘ اس پر جج ابو الحسنات نے کہا کہ ’ہم حکم دے رہے ہیں کہ وقتاً فوقتاً آپ کی آپ کے بیٹوں سے بات کروائی جائے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان دوران سماعت زیادہ بات چیت نہیں کرتے بلکہ عدالتی کارروائی سن رہے ہوتے ہیں لیکن اگر کچھ سہولیات چاہیے ہوں جیسے پہلے صاف واش روم، جم، ایکسرسائز مشین یا گھر کے کھانے کی ضرورت تھی تو ان معاملات پر جج صاحب سے براہ راست بات کر لیتے ہیں۔‘
عمران خان کے لیے اٹک اور اڈیالہ جیل کے کمرے
اس سے قبل پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اٹک جیل میں تقریباً پانچ ہفتے زیر حراست رہے۔ توشہ خانہ کیس میں سزا یافتہ ہونے کے بعد انہیں اٹک جیل منتقل کیا گیا تھا بعد ازاں توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے باوجود سائفر کیس میں انہیں اٹک جیل میں ہی ریمانڈ پر رکھا گیا۔
سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ’بہتر کلاس قیدی ہونے کی وجہ میٹرس، ایئرکولر، چار تکیے اور میز کرسی کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے نیز انہیں چار قرآن پاک انگش ترجمے والے اور 25 تاریخی کتابیں بھی فراہم کی گئیں ہیں۔
اس کے علاوہ 21 انچ ٹی وی اور روزانہ اخبار فراہم کیے جاتے ہیں۔ بیرک، واش روم اور کپڑوں کی صفائی کے لیے انہیں روزانہ سٹاف دیا گیا ہے۔
عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ’عمران خان کو اڈیالہ جیل میں جس کمرے میں رکھا گیا ہے وہ کمرہ 12 فٹ لمبا اور 10 فٹ چوڑا ہے۔ ان کے کمرے میں ٹی وی، چارپائی، کرسی اور میز بھی فراہم کیے گئے ہیں جبکہ اس بیرک میں پنکھا بھی لگا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ اس کے علاوہ لگ بھگ ایک کینال جگہ عمران خان کی چہل قدمی کے لیے مختص کی گئی ہے۔
شیر افصل مروت کے مطابق عدالتی حکم پر عمران خان کو ورزش کے لیے سائیکل بھی فراہم کی گئی تھی۔
کس کس سیاسی رہنما کے لیے عدالت کا مقام تبدیل کیا گیا؟
سکیورٹی خدشات کے باعث ماضی میں بھی ہائی پروفائل کیسز میں کمرہ عدالت تبدیل کیے گئے۔ گھر میں نظر بندی اور گھر کو جیل قرار دینے کی تو سیاسی تاریخ میں عام مثالیں موجود ہیں لیکن عدالت کو اٹھا کر خاص مقام لے جانے کی مثالیں کم ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کو میسر معلومات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کو ہیلی کاپٹر ریفرنس کیس (ہیلی کاپٹر خریدنے اور اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کے جرم میں) میں اٹک قلعے میں 1999 میں رکھا گیا جو اٹک جیل سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکیورٹی خدشات کے باعث نواز شریف کو قلعے میں نظر بند کیا گیا تھا اور بعد ازاں احتساب عدالت وہیں پر کارروائی کرتی رہی۔
لیکن وہاں کوریج کے لیے محدود پیمانے پر صحافیوں کو عدالتی کارروائی دیکھنے کی اجازت دی جاتی تھی۔
2000 میں اٹک قلعے میں ہی 21 سال کی نااہلی، 14 سال قید اور دو کروڑ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔ اسی کیس میں سابق وزیراعظم شہباز شریف بھی اٹک قلعے میں نواز شریف کے ملحقہ سیل میں زیر حراست تھے۔
2001 میں سابق صدر آصف علی زرداری کو بھی اٹک قلعے میں رکھا گیا تھا جہاں احتساب عدالت نے غیر قانونی اثاثے رکھنے پر ان کے خلاف عدالتی کارروائیاں کی تھیں۔
اس وقت بھی صحافیوں کو محدود پیمانے پر رسائی دی گئی تھی۔ سابق صدر آصف زرداری سات سال اٹک قلعے میں قید رہے ہیں۔
انہی دنوں ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار بھی اٹک قلعے میں چونگی ریفرنس کیس میں زیر حراست رہے ہیں ان کی عدالتی کارروائی اور فیصلہ بھی اٹک قلعے میں ہوا۔ کسی سویلین کا اٹک قلعے میں ٹرائل کا پہلا فیصلہ فاروق ستار کے خلاف تھا جبکہ اٹک قلعے سے دوسرا بڑا فیصلہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف تھا۔
سابق صدر و آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے لیے انسداد دہشت گردی کے عدالت نے ججز نظر بندی کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر سکیورٹی خدشات کے باعث پرویز مشرف کے فارم ہاؤس پر عدالتی کارروائی کی تھی۔
اس سے قبل اپریل 2013 میں پرویزمشرف کے فارم ہاؤس کو سب جیل کا درجہ دیا گیا تھا اور بعد ازاں جون 2013 میں کمرہ عدالت بھی فارم ہاؤس میں قرار دیا گیا۔ لیکن اس عدالتی کارروائی میں صحافیوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں تھی یہ ان کیمرہ کارروائی ہوتی تھی۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت کی کارروائی میں صحافیوں کے داخلے پر پابندی ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت چلنے والے مقدمے کی حساسیت کے باعث سماعت کو ان کیمرہ رکھا گیا ہے۔ جس کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں معاملہ زیر التوا ہے کہ عدالتی کارروائی کے لیے اوپن ٹرائل کی اجازت دی جائے۔