اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعے کو سائفر کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی ضمانت اور اخراج مقدمہ کی درخواستیں مسترد کردیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ سنایا، جو 16 اکتوبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔
سائفر کیس میں عمران خان کی گرفتاری کو دو ماہ سے زائد ہو گئے ہیں، عمران خان کو سائفر کیس میں 15 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما شاہ محمود قریشی کو 20 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 30 ستمبر 2023 کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں انہوں نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز پانچ اور نو کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا تھا۔
ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان ہیں جو پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی ریکارڈ کروا چکے ہیں۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سیکریٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں مقدمے کا اندراج ہوا تھا، جس میں انہیں سفارتی حساس دستاویز سائفر کو عام کرنے اور حساس دستاویز کو سیاسی مفاد کے لیے اور ملکی اداروں کے خلاف استعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ ’سائفر تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیر مجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے۔ ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔‘
دستیاب معلومات کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان جو پہلے اٹک جیل میں زیر حراست تھے، توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے باوجود ان کو اس مقدمے میں شامل کر کے اٹک جیل میں ہی جوڈیشل ریمانڈ پر رکھا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی کو 19 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ بھی اب جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں ہیں۔ 20 اگست کو سابق وفاقی وزیر اسد عمر کو بھی ایف آئی اے کاونٹر ٹیررازم ونگ نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا۔ جس کے بعد اسد عمر نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔
14 ستمبر 2023 کو ہونے والی سماعت میں خصوصی عدالت نے کہا تھا کہ ’پراسیکیوشن کے مطابق اسد عمر کے خلاف تاحال ثبوت نہیں، اسدعمر نے شامل تفتیش ہونے کا اظہار کیا لیکن پراسیکیوشن نے شامل تفتیش نہیں کیا، ایف آئی اے کی تفتیش کے مطابق اسدعمر کی گرفتاری مطلوب نہیں، اگر اسدعمر کی گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف آئی اے قانون کے مطابق چلے گی۔‘
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’گرفتاری مطلوب ہوئی تو ایف ائی اے اسدعمر کو پہلے آگاہ کرے گی۔‘ عدالت نے اسدعمر کی درخواست ضمانت 50 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض کنفرم کر دی تھی۔
درج ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ دیگر ملزمان اسد عمر اور اعظم خان کے کردار کا تعین کیا جائے گا اگر وہ ملوث نکلے تو ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور بھی ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے لیے بننے والی خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود سے متعلق مقدمے کی جیل میں ان کیمرہ سماعتوں میں چالان پیش ہونے کے بعد باقاعدہ ٹرائل کا آغاز کردیا ہے اور 23 اکتوبر 2023 کو عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کر دی گئی، تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا۔
انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب معلومات کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کا 100 سال پرانا قانون ہے، جس میں 14 سال قید یا موت کی سزا ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن پانچ اے کی سزا 14 سال قید اور سزائے موت ہے۔