وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا تو موجودہ سیکرٹری خارجہ اُس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے اور انہوں نے تصدیق کی کہ ڈونلڈ لو کے ساتھ ملاقات میں سازش کا کوئی ذکر تک ہوا نہیں ہوا تھا۔
نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام ’کیپٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ میاں نواز شریف اگلے مہینے پاکستان واپس آئیں گے اور قانون کا سامنا کریں گے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا سائفر ڈرامہ ایک بہت بڑا جرم تھا، تحریک انصاف کی حکومت نے سعودی عرب سے تعلقات خراب کرنے کی مجرمانہ کوشش کی، سعودی حکومت کے خلاف ایک بلاک بنانے کی اسے تنہا کرنے کی کوشش کی۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ نگران وزیر اعظم کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور اس سلسلے میں مشاورت جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ خود آئندہ انتخابات میں صرف نواز شریف کے کارکن کی حیثیت سے حصہ لیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دوران امریکہ سے تعلقات بہت خراب ہو گئے تھے۔ ’ہماری حکومت آئی تو واشنگٹن کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں بہت کوشش کرنا پڑی۔‘
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا: ’انہیں کوششوں کی وجہ سے تعلقات بہتر ہوئے اور پھر اسی وجہ سے امریکہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں پاکستان کی مخالفت نہیں کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہماری حکومت امپورٹیڈ ہوتی تو ہمیں ہر جگہ آسانیاں ملتیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہمارے لیے بڑے بڑے مسائل تھے جنہیں ہم نے ہی حل کیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ امپورٹیڈ حکومت ہونے کی صورت میں کہیں سے کوئی ثبوت ضرور منظر عام پر آ جانا تھا۔ ‘اور آئی ایم ایف اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔‘
امریکی اخبار دی انٹرسیپٹ میں سائفر سے متعلق چھپنے والی خبر پر سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس سے عمران خان کے تمام الزامات ہوا میں اڑ گئے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہونے سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا: ’میں اس بارے میں کچھ نہیں کہوں گا۔ ہم ایک ترقی پذیر ملک ہیں۔ ہمیں بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوستوں کے ساتھ چلیں اور جو ساتھ نہیں دے رہا اس کو بھی دور نہ کریں۔‘
مزید ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ اس کی کاپی ان کے پاس تھی اور ان سے گم ہو گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اگر گم ہو گئی ہے تو سائفر اخبار میں چھپا کیسے۔ اور پاکستانی قانون کے تحت خفیہ دستاویز کو اپنے پاس رکھنا جرم ہے۔ وزیراعظم سائفر اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا۔
’عمران خان نے مانا کہ میری کاپی گم ہو گئی۔ ایف آئی اے سائفر کی تحقیقات کر رہا ہے آج اس کیس میں ایک نیا زاویہ سامنے آیا ہے ہے اس کی تحقیقات ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دی انٹرسیپٹ کی خبر سے پی ڈی ایم کا سائفر کے معاملے پر مؤقف ثابت ہوا ہے۔ ’اس سے مر جانا بہتر تھا کہ کسی باہر کے ملک کے ساتھ مل کر سازش کرتے۔‘
پاکستانی فوج کے سربراہ کے حکومتی امور میں کردار سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان 33 سال سے زیادہ مارشل لا رہا، لیکن تمام فوجی حکومتیں ناکام رہیں، جبکہ سیاسی حکومتیں توانا تھیں۔
’پاکستان میں اسٹیبلیشمنٹ کے سیاست اور حکومتی امور میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘
فوج کو حکومت کے ترقیاتی منصوبوں میں ملوث کرنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈھیروں وسائل موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے کسی نے ان کا استعمال نہیں کیا۔
’افراد اور کارٹیلز کے مذموم عزائم کے باعث ہم پاکستان کو میسر قدرتی وسائل میں کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے بلکہ توانائی کے شعبے میں ہم ہائیڈل پاور سے بیرون ملک سے منگوائے گئے تیل کی طرف چلے گئے۔‘
وزیراعظم شہباز شریف نے وضاحات کی کہ ان کی حکومت کو کیوں عسکری ادارے کے ہائبریڈ نظام بنانا پڑا۔ ’ماضی میں بھی ہائبرڈ ماڈل پاکستان میں رہے ہیں اور عمران خان کا دور اس سلسلے میں ماضی قریب میں ہی رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان فوج اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر زراعت، آئی ٹی، معدنیات اور دفاعی پیداوار کے شعبوں میں تعاون کریں گے اور اس کا واحد مقصد ملک کی ترقی ہے۔
حال ہی میں ہونے والی قانون سازی سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقصد عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں ملوث سرکاری اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔