نو نومبر کو اقبال ڈے پر قرطبہ پہنچنے کا ارادہ تو خیر سے لاہور کی سموگ نے ملتوی کرایا لیکن اس اقبال ڈے پر اقبال کے ساتھ جو اہل وطن نے کیا کہ وہ پڑھ پڑھ کے ہاسا ہی نکل گیا۔
ہمارے بچپن میں کسی ناشدنی نے ہم سب کا دھیان اقبال کی طرف لگا دیا تھا۔ ٹی وی پر اقبال کے شعر، کالج کا نام اقبال کے نام پر، ہاؤسنگ کالونی اقبال، اخبار میں یومیہ دو اشعار اقبال کے، حد یہ کہ خاصی شوخ گلوکارائیں بھی اپنی تمام اداؤں سمیت کلام اقبال گاتی ہوئی پائی جاتی تھیں۔
ان میں سے ایک مرحومہ معظمہ کا ایک خاص انداز آج بھی یاد ہے کہ جب وہ بڑے بھید بھرے انداز میں کیمرے کو دیکھتے ہوئے کہتی تھیں کہ ’یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن۔۔۔۔۔۔۔‘ اس کے بعد چند لحظے کی پراسرار خاموشی ہوتی تھی، جس میں وائلن چلاتے تھے، سارنگیاں روتی تھیں اور باجے سر پیٹتے تھے۔ اس دوران بقول شخصے راز کھلنے کے ڈر سے مومن کی ٹانگیں کانپ جاتی ہوں گی۔
میری حقیر رائے میں یہیں سے اقبال کے بارے میں گوناگوں غلط فہمیوں اور ایک ذاتی مخاصمت کا آغاز ہوتا ہے جو بڑھتے بڑھتے یہاں پہنچتا ہے کہ اقبال کے نام سے مضحکہ خیز شاعری منسوب کرنے سے اقبال شکنی تک کی نوبت آتی ہے۔
سیدھے لفظوں میں، سب نے مل کے ہمیں اقبال سے چڑا لیا تھا اور اس ’جبر الحق‘ عہد کے دیگر ری ایکشنری رویوں کے ساتھ ایک رویہ اقبال شکنی بھی ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے یہ کچھ کچھ ’فرائیڈئین‘ سا ردعمل ہے۔
اقبال کے ناقد بس ناراض ہیں۔ وجوہات کو فی الحال جانے دیجیے اور اقبال کا دفاع کرنے والے بھی یقینی طور پہ کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس میں وزن ہے کہ نہیں۔
مجھے یاد ہے کہ آج سے بہت برس پہلے ایک بزرگ ادیب نے مجھے دھمکا کے کہا اقبال کو پڑھا ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ پھر ان کے چہرے پہ حقارت دیکھ کے گھبرا کے بولی، اصل میں مجھے اقبال سے ڈر لگتا ہے سمجھ نہیں آتے۔
مزید حقارت سے گویا ہوئے: ’اقبال سے کہو کہ آئے اور خود پڑھائے، پھر سمجھ آئے گا اقبال۔‘ اس جملے نے مجھے اقبال سے مزید خائف کر دیا۔ یہی حال ہماری ساری نسل کا ہوا، ہمیں اقبال سے چڑایا گیا، ڈرایا گیا اور ہم پہ اقبال مسلط کیا گیا۔
شاعر اور فلسفی مسلط نہیں کیے جاتے، ان سے محبت کی جاتی ہے اور ہم تو ایسی سخن شناس قوم ہیں کہ اپنے شاعروں کے مزار بنا کے مارے محبت کے ان سے مرادیں بھی مانگتے ہیں۔ چاہے ہیر رانجھے کی کہانی سے ہمیں کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مگر وارث شاہ کو پیر ہم بھی سمجھتے ہیں۔
بت شکنی تب ہی ہوتی ہے جب بت بنائے جاتے ہیں اور آپس کی بات ہے بت بنانے کے بھی آداب ہوا کرتے ہیں۔ چند برس قبل اقبال کا ایک مضحکہ خیز مجسمہ دیکھ کے بھی ہم سب کا من حیث القوم ہاسا نکلا تھا اور اب بھی ہر برس اس ہاسے کا اعادہ ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بس یوں سمجھ لیجیے کہ اقبال کو مسلط کرنے والوں نے ہمیں ایسا ہی اقبال دکھایا۔ ایک نجی چینل پہ بے وزن اشعار اقبال کے نام سے منسوب ہونے پہ بھی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ڈنڈے کے زور پہ پڑھایا گیا اقبال کتنا دل میں اترا تھا۔
کبھی کبھی اقبال پہ بہت ترس آتا ہے ایک بہت بڑا شاعر، ’قومی شاعر‘ کو ایکیوریم میں بند کر دیا گیا۔ یقیناً وہ ایک رنگین مچھلی نہیں تھے جنہیں دیکھ کے ہم تالیاں بجاتے رہتے۔ گہرے سمندر کی بڑی مچھلیوں کو جب جب بلوری مرتبانوں میں رکھ کے سرکس لگایا جائے گا، نتیجہ یہی سامنے آئے گا۔
سچی بات تو یہ ہے کہ اقبال ہمیں بھی سمجھ نہیں آیا اور شاید آ بھی جاتا مگر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے پڑھے اردو کے استادوں نے ہمیں اقبال سے دور کر دیا۔
مزید کسر باریک مو قلم سے اقبال کے نام پہ لکھے رحمت اللہ کے لقب نے پوری کر دی۔ اس پہ نیا نیا پڑھنا سیکھنے والوں کے ہاتھ اقبال اور عطیہ فیضی کے خطوط لگ گئے۔ ہمارے کچھ فاضل دوست، اقبال کے خطوط ایما ویگناسٹ کے نام نکال لائے اور بس پھر کچھ نہ پوچھیے، نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔
اقبال کانفرنسیں، تشریح اقبال، اقبال چیئر، اقبال یہ، اقبال وہ، لاہور آرٹس کونسل میں لگا اقبال کا مجسمہ، اور اقبال اقبال اقبال۔ اصل اقبال کہاں گیا کچھ خبر نہیں۔ آج مسجد قرطبہ کا عزم ہے۔ اقبال ہمیں بھی سمجھ نہیں آتا مگر یقین جانیے، کل سے جانے کتنی بار اقبال کی نظم مسجد قرطبہ سن چکی ہوں۔ سمجھ نہ آنے پہ بھی آخر یہ ہی نظم بار بار کیوں سن رہی ہوں؟ کچھ باتیں نہ سمجھ آتی ہیں اور نہ سمجھائی جاتی ہیں، ہوا کو زنجیر نہیں کیا جا سکتا، احساس کی تصویر نہیں بنائی جا سکتی، گذشتہ اقبال ڈے مبارک!
نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔