انڈیا میں ایک ہمالیائی ہائی وے پر سرنگ گرنے سے اندر پھنسے 40 مزدوروں کو نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن تیسرے روز بھی جاری ہے اور حکام راستہ بنانے کے لیے بھاری مشینری کے ذریعے پتھر کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شمالی ریاست اترکھنڈ میں حکام نے مزدوروں تک پہنچنے کے لیے کنکریٹ اور چٹانوں سے بند 40 میٹر کے راستے میں ڈرلنگ کر کے نکلنے کا راستہ بنانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
اترکاشی میں سلکیارا ٹنل کے اندر تعمیراتی جگہ پر موجود مزدور ایک تاریک جگہ محصور ہیں جہاں ان کے ساتھ رابطہ قائم ہونے کے بعد آکسیجن اور خوراک کمپریشن پائپ لائنوں کے ذریعے فراہم کی جا رہی ہے۔
اتوار کو 200 میٹر کے علاقے میں گرنے والی چٹانوں کو ہٹانے میں ریسکیو آپریشن میں بہت کم پیش رفت ہوئی کیونکہ ملبہ گرنے سے آپریشن میں تاخیر ہو گئی ہے۔
قومی اور ریاستی ایجنسیوں کی امدادی ٹیموں نے منگل کو مزدوروں تک پہنچنے کی غرض سے راستہ بنانے کے لیے تقریباً 40 میٹر کا نیا راستہ بنانا شروع کیا جس میں سرنگ کو بند کرنے والی تقریباً 21 میٹر کی سل پہلے ہی ہٹا دی گئی تھی۔
19 میٹر کے بقیہ راستے کو ابھی صاف کیا جانا باقی ہے اور ریسکیو ٹیمیں ملبے میں سوراخ کرنے اور اندر موجود لوگوں تک پہنچنے کے لیے ہائیڈرالک جیک کا استعمال کرتے ہوئے 900 ملی میٹر قطر کا پائپ گزارنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے ایک افسر دیویندر سنگھ پٹوال نے کہا، ’پانی کافی ہے جبکہ فوری توانائی کے لیے آکسیجن اور خشک میوہ جات جیسی خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔‘
جائے وقوعہ کے تازہ ترین مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹرک سرنگ میں 900 ملی میٹر قطر کا پائپ ڈال رہے ہیں اور افقی ڈرلنگ کے لیے اوگر مشین کے لیے ایک پلیٹ فارم تیار کیا جا رہا ہے۔
ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ کنکریٹ کے بڑے ڈھیروں نے سرنگ بند کر دی ہے اور اس کی منہدم چھت سے دھات کے سریے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جس کے باعث یہ امدادی ٹیموں اور پھنسے ہوئے مزدوروں دونوں کے لیے خطرناک ہے۔
اتوار کی صبح مقامی وقت کے مطابق صبح پانچ بجے ایک زیر تعمیر سرنگ کا ایک حصہ منہدم ہونے کے بعد تمام 40 مزدور تقریباً دو کلومیٹر کی جگہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
سلکیارا ٹنل، جو 13 میٹر (43 فٹ) چوڑی اور 15 میٹر (50 فٹ) اونچائی پر ہے، ایک قومی شاہراہ پر تعمیر کی جا رہی تھی اور یہ اتراکھنڈ میں ہندو یاترا کے راستے سے رابطے کو بہتر بنانے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کے ہائی وے منصوبے کا حصہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریاستی پولیس چیف اشوک کمار نے اس سے پہلے کہا تھا، ’امدادی دستے ملبے کو ہٹا رہے ہیں اور جلد ہی ہم تمام مزدوروں کو باہر نکال لیں گے۔‘
کمار نے کہا کہ حکام واکی ٹاکی کے ذریعے کارکنوں سے بات چیت کر رہے ہیں اور حادثے کی اصل وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی۔
پھنسے ہوئے مزدوروں کے ساتھ پہلے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر ایک نوٹ کے ذریعے رابطہ کیا گیا تھا لیکن بعد میں ریڈیو ہینڈ سیٹ کا استعمال کرتے ہوئے رابطہ کیا گیا۔
چند منٹ پہلے نکل جانے سے حادثے سے بال بال بچ جانے والے مزدوروں میں سے ایک نے چیخوں کی آواز سنی اور بتایا کہ وہ بالکل اسی جگہ پر کام کر رہا تھا جہاں حادثہ پیش آیا۔
مغربی بنگال سے تعلق رکھنے والے ایک مہاجر مزدور راجیو داس نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ اس نے چند منٹ پہلے ہی اپنی رات کی شفٹ ختم کی تھی اور چیخیں سن کر سرنگ کے داخلی راستے کی جانب بھاگا تاکہ دیکھے کہ کیا ہوا ہے۔
راجیو داس نے کہا، 'شروع میں ہم نے سوچا کہ تھوڑی سی سرنگ گری ہو گی، اور ملبے کو ہٹانا شروع کر دیا۔ لیکن جلد ہی، ہمیں احساس ہوا کہ یہ ایک مشکل سرچ اینڈ ریسکیو (مشن) تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’یہ خیال میرے ذہن سے نہیں نکلتا کہ یہ میں بھی ہو سکتا تھا۔‘
داس نے کہا کہ ڈھانچے کی مضبوطی کے بارے میں کارکنوں میں خدشات تھے اور ’انہیں محسوس ہوا تھا کہ شاید ڈھانچہ زیادہ مضبوط نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا، ’صرف ایک دن پہلے جب ہم ایک جالی دار گرڈر ہٹا رہے تھے تو ہم نے کچھ ملبہ گرتے ہوئے دیکھا۔ ہفتہ کی رات کو کنکریٹ کا ایک ٹکڑا چھت سے گر گیا۔ ہم نے اپنے سینئرز کو مطلع کیا۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر پاتے، یہ واقعہ پیش آ گیا۔‘
نیشنل ہائی ویز اینڈ انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ (این ایچ آئی ڈی سی ایل) سرنگ بنا رہی ہے۔
’این ایچ آئی ڈی سی ایل کے ڈائریکٹر انشو منیش خلکو نے دی منٹ کو بتایا، ’اب صورت حال بہتر ہے۔ مزدور محفوظ ہیں۔ ہم کھانا اور پانی فراہم کر رہے ہیں۔ اس کے اندر تقریباً 40 افراد موجود ہیں۔ کہ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘
اترکھنڈ حکومت نے سرنگ گرنے کی تحقیقات کے لیے چھ رکنی ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی ہے۔
مزدوروں کی حالت کے بارے میں بتاتے ہوئے جائے حادثہ پر موجود ایک مکینیکل فورمین ششی چوہان نے کہا کہ گرنے کے فورا بعد وہ گھبرا گئے تھے لیکن رابطہ قائم ہونے کے بعد انہوں نے تھوڑا آرام محسوس کیا۔
چار دھام یاترا روٹ میں شامل اس سرنگ پر 2018 میں کام شروع ہوا تھا۔ اس کی تکمیل تاخیر کا شکار ہے کیونکہ اسے جولائی 2022 تک مکمل ہونا تھا۔ سینکڑوں مکانات کو نقصان پہنچنے کے بعد مقامی حکام نے پروجیکٹ کا کچھ کام کچھ وقت کے لیے روک دیا تھا۔
© The Independent