پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان میں حکومت کی جانب سے گندم کی سبسڈی میں کمی اور بعض کے لیے مکمل خاتمے پر عوام اور سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی زیرصدارت منگل کو اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے اجلاس کو بتایا کہ مرکزی حکومت کی گندم کی سبسڈی سے متعلق پالیسی پر تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔
گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے گندم کی مد میں سبسڈی کو ملک میں مہنگائی میں شدید اضافے کے بعد ٹارگٹڈ کیا جا رہا ہے، یعنی ایک خاص طبقے اور ضروت مندوں کو یہ سبسڈی دی جائے گی جبکہ 40 ہزار ماہانہ سے زائد آمدنی والے افراد کو مارکیٹ ریٹ پر گندم خریدنی ہو گی۔
اجلاس میں وزیر اعلیٰ نے معاشی مسائل حل کرنے کے لیے وفاقی حکومت سے گلگت کو نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ میں شامل کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
انہوں نے اجلاس کو بتایا، ’باقی صوبوں کی طرح اگر گلگت بلتستان کو بھی این ایف سی ایوارڈ میں حصہ دیا جائے تو یہ سالانہ تقریباً 150 ارب روپے بنتے ہیں جس سے گلگت کے معاشی مسائل ہوسکتے ہیں۔‘
این ایف سی ایوارڈ ٹیکسز کی مد میں تمام صوبوں سے وفاق کو ملنے والی رقم ہے اور سالانہ اس رقم کو تمام صوبوں میں آبادی کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔
تاہم اس میں گلگت بلتستان شامل نہیں، کیونکہ آئینی طور پر گلگت بلتستان کو یہ رقم موجودہ قوانین کے تحت نہیں دی جاتی۔
ماؤنٹین ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ نامی جریدے میں گلگت بلتستان کے خوراک کی حالات پر 2018 میں شائع ایک تحقیقی مقالے میں بتایا گیا کہ گلگت بلتستان کے ضلع نگر میں ایک خاندان میں اوسط سات ارکان شامل ہیں اور ہر ایک فرد کی سالانہ ضرورت 100 کلو سے 150 کلو تک گندم ہے۔
تحقیق کے مطابق اسی حساب سے گلگت بلتستان میں مقامی طور پر صرف 10 فیصد سے 40 فیصد تک گندم پیدا کی جاتی ہے جبکہ باقی گندم کی ضرورت ملک کے دیگر حصوں سے پوری ہوتی ہے۔
سبسڈی کم کرنے پر رد عمل
عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کی مختلف سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹیز تنظیموں کی ایک نمائندہ تنظیم ہے اور گندم کی سبسڈی کے بارے میں نئے فیصلے کے خلاف اس کمیٹی نے احتجاج کی کال دے دی تھی لیکن وزیر اعلیٰ نے ایکشن کمیٹی کے منتظمین کو ملاقات کا وقت دیا ہے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین فدا حسین اس کمیٹی کے گلگت بلتستان کے تمام 10 اضلاع میں انتظامی سیٹ اپ میں موجود ہیں۔
فدا حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ہم نے اس فیصلے کے آنے کے بعد تمام اضلاع میں تحریک چلانے کی کال دی تھی لیکن وزیر اعلیٰ نے درخواست کی ہے کہ پہلے ان سے ملاقات کریں۔
انہوں نے بتایا: ’حکومت گندم کی سبسڈی کوئی خیرات کے طور پر ہمیں نے دے رہی بلکہ گلگت کی متنازع حیثیت کی وجہ سے ہمیں یہ ملتی ہے جو ہمارا حق ہے اور ہم کبھی بھی گندم کی سبسڈی ختم کرنے یا کم کرنے کو قبول نہیں کریں گے۔‘
فدا نے بتایا، ’گلگت بلتستان کا علاقہ متنازع ہے اور یہاں پاکستان کا صرف انتظامی امور موجود ہے لیکن دیگر پاکستان کے طرح کے حقوق یہاں پر نہیں دیے جا رہے اور اس سے پہلے گندم کے علاوہ ہمیں جہاز ٹکٹ پر سبسڈی، نمک، تیل اور دیگر چیزوں پر بھی سبسڈی ملتی تھی لیکن وہ ختم کی گئی ہے اور اب صرف گندم پر سبسڈی دی جا رہی ہے اور حکومت اس کو ختم کرنے جا رہی ہے۔‘
ان کے مطابق گلگت بلتستان کی سالانہ گندم کی ضرورت 100 کلوگرام کے تقریباً 16 لاکھ تھیلے ہیں جس کے لیے 22 ارب روپے سبسڈی کی ضرورت ہے جبکہ ہمیں اب تقریباً نو ارب روپے ملتے ہیں جو کسی طور بھی قبول نہیں۔‘
’باقی تو کچھ بھی نہیں ہے اور اب گلگت بلتستان کے لوگوں کا پاکستان کے ساتھ رشتہ صرف گندم کا ہی رہ گیا ہے اور حکومت اس کو بھی ختم کر رہی ہے اور اس کو بھیک مانگنے اور خیرات کے طور پر پیسے دینے کی طرز پر تبدیل کیا جا رہا ہے جو سراسر زیادتی ہے۔‘
ملاکنڈ ڈویژن کی مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ اب باقاعدہ طور پر پاکستان کا حصہ ہے لیکن کئی دہائیوں سے اب تک ان کو ٹیکسز سے چھوٹ سمیت مختلف مراعات دی جا رہی ہیں تو گلگت بلتستان کو بھی ایسے ہی مراعات دی جائیں جب تک اس علاقے کا تنازعہ ختم نہیں ہوتا۔
گلگت بلتستان کو گندم سبسڈی کیوں اور کتنی ملتی ہے؟
وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کو مالی سال 2022-23 میں گندم کی مد میں چار ارب روپے کی سبسڈی دی گئی جبکہ ملک میں مہنگائی اور گندم کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مالی سال 2023-24 میں یہ سبسڈی چار ارب سے بڑھا کر نو ارب 50 کروڑ روپے کر دی گئی۔
تاہم اس سے بھی گندم کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی اور رواں سال گلگت بلتستان حکومت کی جانب سے مزید دو ارب ترقیاتی کاموں سے نکال کر گندم سبسڈی کی مد میں دیے گئے تھے، جس سے چار پانچ لاکھ گندم کی بوریوں کی کمی کو پورا کیا گیا تھا۔
گلگت بلتستان کو گندم کی مد میں سبسڈی 1972 میں اس وقت کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ سبسڈی گلگت کا دیگر پاکستان سے سفری مشکلات اور ٹرانسپورٹ پر زیادہ خرچہ آنے کی وجہ کیا گیا تھا تاکہ دیگر پاکستان کی طرح گلگت کے لوگوں کو بھی گندم کی فراہمی یقینی بنایا جاسکے۔
تاہم گذشتہ ایک سال سے زائد کے عرصے میں ملک میں مہنگائی کی وجہ سے یہ سبسڈی پچھلے مالی سال کے مقابلے میں دگنی سے بھی بڑھ گئی ہے اور موجودہ مارکیٹ کے حساب سے دیگر شہروں کے مقابلے میں گلگت بلتستان میں گندم کی قیمتیں تقریباً پانچ گنا سستی ہے۔
آج کل دیگر صوبوں میں آٹے کے 40 کلوگرام تھیلے کی قیمت تقریباً چھ ہزار روپے ہے اور یہی تھیلا گلگلت بلتستان میں تقریباً1100 روپے میں ملتا ہے اور اسی وجہ سے وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان حکومت کو گندم کی قیمتوں میں دیگر شہروں کے مقابلے میں اتنا زیادہ فرق کو کم کرنے کا کہا گیا ہے ۔
گندم سبسڈی کیوں کم کی جارہی ہے؟
گلگلت بلتستان کی حکومت کی جانب سے گذشتہ روز اعلان کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کی ہدایات کی روشنی میں گندم کی سبسڈی سرکاری گریڈ 17 ملازم اور اس سے اوپر کے ملازمین کے لیے ختم کی جارہی ہے ۔
اسی طرح گلگلت بلتستان کابینہ کے فیصلے کے روشنی میں فی کلو آٹے کی قیمت 20 روپے سے بڑھا کر اب سبسڈائزڈ قیت فی کلو 52 روپے کردی گئی ہے یعنی اب 40 کلو کا تھیلہ2080 روپے میں ملے گا جبکہ یہی تھیلہ دیگر شہروں میں پانچ سے چھ ہزار روپے کا ملتا یت۔
گلگت بلتستان کے محکمہ فوڈ کے ڈائریکٹر اکرام محمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’گندم کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی وجہ سے ہمیں یہ فیصلہ کرنا پڑا ہے کیونکہ حکومتی خزانے پر بہت بڑا معاشی بوجھ پڑ رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ امپورٹڈ گندم کی فی کلو مارکیٹ قیمت 166 روپے ہے جبکہ گلگت میں یہ 20 روپے پر ملتی تھی جبکہ مقامی گندم کی قیمت فی کلو 125 روپے ہے۔
اکرام محمد نے بتایا، ’ہم نے سبسڈی ختم نہیں کی ہے لیکن مہنگائی کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ کیا ہے جبکہ اب بھی دیگر شہروں کے مقابلے میں یہ کم قیمت ہے اور ابھی فی کلو ہم نے 52 روپے کر دی ہے جبکہ یہ تمام افراد کے لیے ہو گی لیکن گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے ملازمین کے لیے کوئی سبسڈی نہیں دی جائے گی۔‘
اکرام محمد سے جب پوچھا گیا کہ کیا یہ فیصلہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط کی روشنی میں کیا گیا ہے تو کہتے ہیں: ’آئی ایم ایف کا گلگت بلتستان حکومت کے ساتھ کوئی براہ راست واسطہ ہی نہیں ہے اور یہ فیصلہ ہم نے فنڈز کی کمی کی وجہ سے لیا ہے۔‘