کپتانوں کے ہٹنے ہٹانے کا کھیل

پاکستان کرکٹ بورڈ کی پریس ریلیز میں یہ بات موجود ہے کہ بابراعظم کو دو فارمیٹ کی کپتانی سے فارغ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ایک فارمیٹ پر توجہ دے سکیں اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی جاری رکھیں۔

بابر اعظم 10 نومبر 2023 کو ایڈن گارڈنز کرکٹ سٹیڈیم  کلکتہ میں انگلینڈ اور پاکستان کے میچ میں (دیبیانگشو سرکار/ اے ایف پی)

اس بارے میں اب سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ماضی کے حکمرانوں کے دور کی محلاتی سازشوں اور بغاوتوں کی تاریخ پڑھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی کرکٹ میں کپتانوں کے ہٹنے ہٹانے کی سازشوں اور بغاوتوں کو بھی ہمارے نصاب میں شامل کر لینا چاہیے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کریں۔

کیونکہ درون خانہ پاکستان کے کپتانوں کی تبدیلی جس طرح عمل میں آتی ہے وہ کسی طور بھی راجہ مہاراجاؤں اور بادشاہوں کے ادوار کی محلاتی سازشوں سے مختلف نہیں ہے۔

میچ فکسنگ، سپاٹ فکسنگ اور بال ٹمپرنگ کے ساتھ ساتھ کپتانوں کی تبدیلی بھی پاکستانی کرکٹ کے بڑے تنازعات کا حصہ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا کے سابق کپتان ایئن چیپل نے طنزیہ کہا تھا کہ ’لوگ اتنی تیزی سے شرٹس تبدیل نہیں کرتے جتنی تیزی سے پاکستان میں کپتان تبدیل ہوتے ہیں۔‘

بابراعظم وہ پہلے کپتان نہیں ہیں جو غیرمعمولی حالات میں اپنے عہدے سے ہٹے یا ہٹائے گئے۔

کیا کوئی یہ سوچ سکتا ہے کہ پاکستان کرکٹ کی تاریخ کے طاقتور ترین کپتان عبدالحفیظ کاردار کو بھی ان کے عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی گئی اور وہ بھی اس وقت جب وہ انڈیا کے خلاف پاکستان کی اولین ٹیسٹ سیریز میں لکھنؤ ٹیسٹ کی تاریخی جیت کے بعد انگلینڈ کے دورے پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔

اگر وہ اپنی کپتانی بچانے کے لیے اسکندر مرزا سے مدد طلب نہ کرتے تو لاہور جمخانہ میں بیٹھ کر تیار کیے گئے خیالات عملی شکل اختیار کرچکے ہوتے جس کے محرک پاکستان کے پہلے غیرسرکاری کپتان میاں محمد سعید ( یاور سعید کے والد) تھے لیکن کاردار کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کی ابتدا خود انہوں نے ہی کی تھی جب انہوں نے میاں محمد سعید کو ہٹا کر خود کپتان بننے کے لیے جوڑ توڑ کی تھی۔

فضل محمود انڈیا کے دورے سے واپس آئے تو ٹیم کے منیجر ڈاکٹر جہانگیر خان کی رپورٹ لیک ہوکر انڈین میڈیا کی زینت بن چکی تھی جس کے مطابق فضل محمود اور حنیف محمد کے رویے اس دورے میں مناسب نہیں تھے خاص کر کپتان فضل محمود شام کے اوقات میں ٹیم سے بالکل لا تعلق ہو جایا کرتے تھے جس پر پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار ان دونوں کھلاڑیوں پر جرمانے بھی عائد کیے گئے تھے۔

 صدر ایوب خان نے اس صورت حال کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا تھا کہ مستقبل میں پاکستانی ٹیم میں ڈسپلن قائم کرنے کی غرض سے غیر ملکی دورے پر کسی فوجی افسر کو منیجر بنا کر بھیجا جائے۔

 فضل محمود کو انگلینڈ کے دورے سے دور رکھنے کا فیصلہ مقتدر حلقے کر چکے تھے۔ جاوید برکی کو کپتان بنائے جانے کا بڑا سبب ان کی قائدانہ صلاحیت سے زیادہ ان کے والد جنرل واجد علی برکی کا صدر ایوب خان سے قریبی تعلق ہونا تھا۔

فضل محمود نے اپنی سوانح حیات میں اس واقعے کا ذکر کیا ہے کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے آنے والی ایک فون کال نے بورڈ کے سربراہ جسٹس کارنیلیئس جیسے اصول پسند شخص کو بھی مجبور کردیا کہ فضل محمود کو دورے سے الگ رکھ کر جاوید برکی کو کپتان بنادیا جائے۔

مشتاق محمد پاکستانی کرکٹ ٹیم کی تاریخ کے بہترین کپتانوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب Inside Out میں اس بات کا تفصیلی ذکر کیا ہے کہ کس طرح انہیں کپتانی سے محروم کیا گیا۔

ہم مزید آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کس طرح آسٹریلیا کے دورے میں پاکستانی ٹیم کے تمام ہی کھلاڑیوں نے جاوید میانداد کی کپتانی میں کھیلنے سے انکار کیا اور کرکٹ بورڈ کو وقتی طور پر نئے کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل کر کے میانداد کی کپتانی میں سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیلنے پڑے۔

لیکن اس بغاوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ بورڈ کو مستقبل میں اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے کسی کو ’متفقہ کپتان‘ بنانے کا سوچنا پڑا اور انتخاب عالم کی تجویز پر ایئر مارشل نورخان نے قیادت کے لیے عمران خان کا انتخاب کیا۔

عبدالحفیظ کاردار کے بعد عمران خان پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ کے طاقتور ترین کپتان سمجھے جاتے ہیں، لیکن ذرا سوچیے کہ وہ بھی درون خانہ سازشوں اور بغاوت سے نہ بچ سکے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب وہ عالمی کپ کے فاتح بن چکے تھے لیکن ٹیم کے کھلاڑیوں نے انہیں کپتان قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کھلاڑیوں میں جاوید میانداد، سلیم ملک اور رمیز راجہ پیش پیش تھے۔ عمران خان ورلڈ کپ کے بعد انگلینڈ کے دورے میں ٹیسٹ سیریز کھیلنے کے خواہشمند تھے لیکن ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔

وسیم اکرم کے بارے میں مشہور ہے کہ انہیں پہلی مرتبہ کپتانی وقت سے پہلے دے دی گئی تھی تو ان کا رویہ ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ اچھا نہ تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب WASIM میں یہ بات تسلیم کی ہے کہ وہ اس ذمہ داری کے لیے ناتجربہ کار تھے تاہم انہوں نے اپنی کتاب میں کپتانی سے ہٹائے جانے کا ذمہ دار ٹیم کے سینیئر کھلاڑیوں کو ٹھہرایا ہے اور خاص کر نائب کپتان وقار یونس پر کھل کر تنقید کی ہے کہ وہ ہر بات پر ان سے بحث کرتے تھے اور ٹیم کے متعدد کھلاڑی ان کے ذہن میں یہ بات ڈالتے رہے تھے کہ وسیم اکرم کو ہٹا کر انہیں کپتان ہونا چاہیے۔

وسیم اکرم جتنی تیزی سے کپتان بنے اسی تیزی سے ہٹائے بھی گئے اور ان کی جگہ سلیم ملک کو کپتانی سونپی گئی تھی۔

2003 کا عالمی کپ بھی کھلاڑیوں کی گروپ بندی کا شکار رہا تھا ایک طرف کپتان وقار یونس تھے تو دوسری جانب وسیم اکرم اور ان کے حمایت یافتہ کرکٹرز۔

یونس خان کی قیادت میں پاکستان نے 2009 میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا لیکن ان کے خلاف بھی ٹیم کے کھلاڑی بغاوت پر آمادہ ہو گئے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کھلاڑی یونس خان کے سخت رویے سے نالاں تھے اور یہ واقعہ تو سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کھلاڑیوں نے یونس خان کے خلاف قرآن پر حلف لیا تھا اور پھر شاہد آفریدی کو اپنا ترجمان بنا کر منیجر یاور سعید کے ساتھ بورڈ کے چیرمین اعجاز بٹ کے پاس شکایتوں کا پلندہ دے کر بھیجا تھا۔

مصباح الحق کپتان تھے لیکن یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ شاہد آفریدی نے 2015 کے عالمی کپ سے قبل ایک پریس کانفرنس میں کپتانی کی خواہش ظاہر کر ڈالی تھی جس پر شہریارخان کو یہ واضح پیغام دینا پڑا تھا کہ مصباح الحق ہی ٹیم کے کپتان رہیں گے۔

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں سرفراز احمد کی کپتانی سابق وزیراعظم عمران خان کی ناراضی کی وجہ سے گئی جنہوں نے سرفراز احمد کو بھارت کے خلاف ورلڈ کپ کے میچ میں ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا مشورہ دیا تھا جو نہیں مانا گیا۔ اسی طرح عمران خان کے کہنے پر اظہرعلی کو دفاعی کپتان قرار دے کر بابراعظم کو کپتان کے طور پر لایا گیا۔

اب ایک نظر بابر اعظم کی کپتانی پر ڈال لیتے ہیں۔ جب بابراعظم کپتان بنے تو اس وقت یہ باتیں سننے کو ملتی رہیں کہ ان کا ریموٹ کنٹرول ہیڈ کوچ مصباح الحق کے ہاتھ میں ہے جس پر بابراعظم کو یہ کہنا پڑا تھا کہ وہ بااختیار کپتان ہیں۔

جہاں تک بابراعظم کے بااختیار کپتان ہونے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جو کھلاڑی بھی چاہتے تھے وہ سلیکشن کمیٹی انہیں دیتی رہی جس کی وجہ سے کئی بار یہ اعتراض بھی سامنے آیا کہ بابراعظم یاری دوستیاں نبھاتے ہیں۔ محمد نواز اور شاداب خان کی متواتر خراب کارکردگی کے باوجود انہیں ٹیم سے باہر نہ کیے جانے کی ایک بڑی وجہ بابراعظم ہی تھے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل جب بابراعظم کو کپتانی سے ہٹائے جانے کی باتیں ہونے لگیں تو ٹیم کے کچھ کھلاڑی سوشل میڈیا پر ’سوچنا بھی منع ہے‘ کے ہیش ٹیگ کے ساتھ ان کی حمایت میں سامنے آگئے تھے جس کا کرکٹ بورڈ کی سابق انتظامیہ نے سخت نوٹس لیا تھا۔

ورلڈ کپ کے بعد بابراعظم کے کپتانی سے ہٹنے کی کئی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں جن میں ان کے کرکٹ بورڈ سے سرد تعلقات، سروگیٹ کا معاملہ، ورلڈ کپ میں ٹیم اور خود ان کی اپنے معیار سے کہیں کم انفرادی کارکردگی شامل ہیں لیکن یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ورلڈ کپ سے بہت پہلے سے ہی انہیں کپتانی سے ہٹائے جانے کی باتیں شروع کردی گئی تھیں اور ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی شاہین آفریدی کے حوالے کرنے کی خواہش رکھنے والوں میں ان کی اپنی فرنچائز لاہور قلندر کے ڈائریکٹر عاقب جاوید پیش پیش تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک ٹی وی چینل پر ہونے والے تبصرے اور تجزیے مکمل طور پر بابراعظم کے خلاف سنائی دے رہے تھے جس پر عام رائے یہ تھی کہ اس کا سبب بابراعظم کا کراچی کنگز چھوڑنے کا فیصلہ تھا جس کے بعد یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی پریس ریلیز میں یہ بات موجود ہے کہ بابراعظم کو دو فارمیٹ کی کپتانی سے فارغ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ایک فارمیٹ پر توجہ دے سکیں اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی جاری رکھیں۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بابراعظم سے ون ڈے کی کپتانی کی شکایت تھی کہ وہ مطلوبہ نتائج نہ دے سکے لیکن ٹی ٹوئنٹی کی کپتانی سے انہیں ہٹانے کا فیصلہ کیوں؟

اس سوال کا جواب اگر ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں بابر اعظم کی کپتانی کے ریکارڈ میں تلاش کرنا ہے تو وہ کچھ اس طرح ہے کہ ان کی قیادت میں پاکستان نے ایک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا۔ ایک ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل کھیلا۔ ایشیا کپ کا فائنل کھیلا۔ نیوزی لینڈ میں ٹی ٹوئنٹی سہ فریقی سیریز جیتی۔ نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز برابر کھیلی۔

جہاں تک اعدادوشمار کی بات ہے تو ان کی قیادت میں پاکستان نے 71 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کھیلے ہیں جن میں سے 42 جیتے ہیں جو پاکستان کا ریکارڈ ہے۔ کیا اس کے بعد بھی ٹی ٹوئنٹی کپتان کی تبدیلی ضروری تھی؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر