اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جیل میں چلنے والے مقدمے کی سماعتوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’29 اگست کے بعد جیل ٹرائل کی کارروائی کاالعدم قرار دی جاتی ہے۔‘
عدالت کے اس فیصلے کے بعد بہت سے قانونی سوالات پیدا ہو گئے ہیں کہ کیا اب ٹرائل ازسرنو شروع ہو گا؟ فرد جرم اور جن گواہوں کے بیانات قلمبند ہو چکے ان کی کیا قانونی حیثیت رہ گئی؟
انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی ماہرین سے ان تکنیکی معاملات پر گفتگو کی ہے۔
قانونی ماہرین کی رائے
سابق وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد شاہ نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے رائے دی کہ ’اب حکومت کے پاس دو راستے ہیں، یا تو وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی تعمیل کریں یا پھر سپریم کورٹ سے رجوع کر لیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب ٹرائل ازسرنو شروع ہو گا، کیوں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹرائل کی اب تک کی کارروائی کی قانونی حیثیت نہیں رہی، عدالتی حکم کے مطابق اوپن کورٹ میں ٹرائل کی کارروائی دوبارہ ہو گی، دوبارہ فرد جرم عائد کی جائے اور گواہوں کے بیانات بھی پھر سے قلمبند ہوں گے۔‘
عمران خان کی قانونی ٹیم سے بیرسٹر علی ظفر سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’ہم فیصلے سے خوش ہیں کیوں کہ پہلے والا ٹرائل غیر موثر ہو گیا ہے اور نیا ٹرائل شروع ہونے میں کچھ وقت لگے گا تو ہمیں قانونی حکمت عملی کے لیے وقت مل گیا ہے۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ ’عدالت نے مقام تبدیل کرنے کا نہیں کہا صرف یہ کہا ہے کہ قانونی عمل اختیار کر کے جیل میں بھی ٹرائل ممکن ہے تو اگر حکومت قانونی اعتراضات ختم کر دیتی ہے پھر تو ٹرائل جیل میں ہی ہو گا؟‘
اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’ایسی صورت میں ٹرائل بے شک جیل میں ہو گا لیکن وہ ان کیمرہ نہیں ہو گا بلکہ مخصوص تعداد میں ٹرائل کی کوریج کی اجازت ہو گی۔‘
سائفر کیس میں وکیل استغاثہ شاہ خاور سے عدالتی فیصلے کے اثرات پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ ’29 اگست 2023 کا جو نوٹیفیکیشن تھا اس میں وزارت قانون نے ایک دن کی اجازت دی تھی کہ اٹک جیل میں سماعت کر لیں۔ اس کی پھر توسیع کر دی گئی اور 12 ستمبر اور بعد میں مزید نوٹفیکیشن بھی جاری کیے گئے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہ خاور نے کہا کہ ’14 نومبر 2023 کو کابینہ کا نوٹیفیکیشن جس میں کابینہ نے یہ کہا تھا کہ جیل ٹرائل کے اس نوٹیفیکیشن کا ماضی سے اطلاق ہو گا لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کو بھی کاالعدم قرار دے دیا ہے کیوں کہ قانونی طریقہ کار یہ ہے کہ حکومت کو جوڈیشل مجسٹریٹ یا جج کو ملزم کے جیل ٹرائل کی درخواست دینا تھی کہ وہ جیل میں ٹرائل کرنا چاہتے ہیں جس کے بعد جج نے اس درخواست پر جوڈیشل آرڈر جاری کرتے ہیں دیگر فریقوں کو بھی نوٹس کرتے ہیں کہ سکیورٹی وجوہات پر جیل ٹرائل کرنا چاہتے ہیں۔
’ابوالحسنات نے استغاثہ کی درخواست پر جوڈیشل آرڈر دینے کرنے کے بجائے وزارت قانون کو خط لکھ دیا کہ سکیورٹی وجوہات پر جیل ٹرائل کا نوٹیفیکیشن دیں تو وزارت قانون نے نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔ یہی اعتراض اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ نے اٹھایا کہ جیل ٹرائل کا جوڈیشل آرڈر نہیں ہے یہی وجہ ہے جیل ٹرائل کالعدم ہوا ہے۔‘
شاہ خاور نے مزید بتایا کہ ’اب سارا عمل ازسرنو ہو گا، اب فوری جیل ٹرائل کی تازہ درخواست جج کو دی جائے گی جس پر جوڈیشل آرڈر ہونے کے بعد جیل ٹرائل کو سند مل جائے گی قانونی سقم ختم ہو جائے گی۔ اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے جو چار ہفتوں میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت دی تھی وہ حکم ابھی بھی موجود ہے پھر اس پر عمل کیا جائے گا اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت کی جائے گی۔‘سابق جج نے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کے سپریم کورٹ یہ فیصلہ چیلنج ہو کیوں کہ اس سے وقت ضائع ہو گا اب صرف قانونی سقم دور کی جائے گی۔‘
سیاق و سباق
سائفر کیس میں گرفتاری سے قبل عمران خان توشہ خانہ کیس میں سزایافتہ ہونے پر اٹک جیل میں زیر حراست تھے جس کے بعد سائفر کیس میں جب وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تو اٹک جیل میں ہی ان سے سائفر کیس کی تفتیش کی گئی اور ابتدائی طور پر خصوصی عدالت اٹک جیل میں جا کر سماعت کرتی رہی۔
توشہ خانہ میں سزا معطلی کے باوجود سائفر کی وجہ سے وہ اٹک جیل میں ہی رہے۔
عمران خان کی درخواست پر انہیں بعد ازاں اٹک جیل سے اڈیالہ منتقل کیا گیا اور خصوصی عدالت اڈیالہ جیل جا کر سماعت کرتی رہی۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر گذشتہ ماہ 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی گئی اس کے بعد 27 اکتوبر کو سرکاری گواہ طلب کیے گئے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل کے باعث کارروائی آگے نہ بڑھ سکی۔ پھر 31 اکتوبر کی تاریخ طے ہوئی جس میں دس گواہوں کو پیش کیا گیا لیکن بیابات قلمبند نہ کیے جاسکے۔
سات نومبر 2023 کو عدالت نے تین گواہوں کے بیان قلمبند کیے اور جرح ہوئی جبکہ 14 نومبر کو ایک دو گواہوں کے بیان قلمبند جبکہ ایک پر جرح ہوئی جس کے بعد کیس کی کارروائی اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر روک دی گئی۔
سائفر کیس میں عمران خان کی گرفتاری کو 13 ہفتے ہو گئے ہیں، عمران خان کو سائفر کیس میں 15 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ شاہ محمود قریشی کو 20 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
ایف آئی اے نے 30 ستمبر 2023 کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا جس میں انہوں نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز پانچ اور نو کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا۔
ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان ہیں جو پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی ریکارڈ کرا چکے ہیں۔