اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کا جیل ٹرائل کالعدم قرار دے دیا

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے سائفر کیس کا جیل ٹرائل کالعدم قرار دے دیا۔

سابق وزیراعظم عمران خان نے27 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں ایک مبینہ خط لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے (ویڈیو سکرین گریب/ پی ٹی وی)

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی انٹرا کورٹ اپیل منظور کرتے ہوئے سائفر کیس کا جیل ٹرائل کالعدم قرار دے دیا۔

عدالت نے منگل کو مختصر فیصلہ سنایا اور جیل ٹرائل سے متعلق 29 اگست کا نوٹیفیکیشن کالعدم قرار دے دیا۔

سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف عمران خان کی انٹراکورٹ اپیل پر فیصلہ آج دن میں محفوظ کیا گیا تھا اور عدالت نے کہا تھا کہ ’اس کیس کا شارٹ آرڈر آج ہی سنایا جائے گا۔ شارٹ آرڈر کے بعد تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری ہو گا۔‘

سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جیل ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت منگل کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب اور جسٹس ثمن رفعت پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بینچ نے کی۔

اٹارنی جنرل نے عمران خان کے وکیل کو جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سائفر کیس کا جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ماضی میں ملزمان کے اہل خانہ کو جیل ٹرائل دیکھنے کی اجازت نہیں ملی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جیل میں ٹرائل کے لیے کورٹ کو ملنے والا کمرہ بہت چھوٹا اور گنجائش محدود تھی۔

’اب اس متعلق سنگل بینچ نے بھی آرڈر پاس کر دیا ہے، جیل ٹرائل سے متعلق ٹرائل کورٹ جج کا جوڈیشل آرڈر موجود ہے۔ جج آرڈر شیٹ میں لکھ رہا ہے کہ ٹرائل جیل میں کیا گیا تو یہ جوڈیشل آرڈر ہے۔ اوپن ٹرائل کے لیے گائیڈ لائنز کو فالو کیا جائے گا۔‘

عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سائفر کیس میں ابھی تک جیل ٹرائل کی تمام کارروائی غیر قانونی ہے، اگر مستقبل میں بھی جیل ٹرائل کرنا ہے تو جوڈیشل آرڈر لائیں اور کابینہ سے منظوری لیں، جیل ٹرائل کے لیے طریقہ کار موجود ہے۔ جیل ٹرائل کے لیے پہلا قدم جج کا مائنڈ ہے کہ وہ جیل ٹرائل کا فیصلہ کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جج کو جیل ٹرائل کے لیے وجوہات پر مبنی واضح آرڈر پاس کرنا چاہئیے، اس کے بعد چیف کمشنر کی درخواست پر وفاقی حکومت کی منظوری کا مرحلہ آتا ہے، وفاقی حکومت کابینہ سے منظوری لے تو اس کے بعد ہائی کورٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اگر مان بھی لیا جائے کہ پراسیس کا آغاز ٹرائل کورٹ جج نے کیا تو آگے طریقہ کار مکمل نہیں ہوا۔‘

ان کے مطابق ’جیل ٹرائل کے لیے منظوری وفاقی کابینہ نے دینی ہوتی ہے، اس کیس میں 12 نومبر سے پہلے وفاقی کابینہ کی منظوری موجود ہی نہیں، جج کو جیل ٹرائل سے متعلق جوڈیشل آرڈر پاس کرنا چاہئے۔‘

سلمان اکرم راجہ نے مزید کہا کہ ’جوڈیشل آرڈر میں فائنڈنگز بھی دینی چاہئیے اور اب وفاقی کابینہ نے منظوری تو دے دی لیکن بنیادی جوڈیشل آرڈر موجود ہی نہیں۔ مان بھی لیا جائے کہ وفاقی کابینہ کی منظوری ہو گئی تو اس سے پہلے کی کارروائی غیرقانونی ہے۔ جج نے آٹھ نومبر کو وزارت قانون کو آخری خط لکھا، جج کا خط جوڈیشل جوڈیشل آرڈر کی حیثیت نہیں رکھتا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’16 اگست کی سماعت کے بعد یہ ٹرائل جیل میں منتقل کیا گیا، میرے خیال میں جیل ٹرائل کے معاملے پر پہلی درخواست پراسکیوشن کی طرف سے آتی ہے۔ پراسکیوشن کی درخواست پر جج نے اپنا مائنڈ ایپلائی کرنا ہوتا ہے، پراسکیوشن کی درخواست پر باقاعدہ فیصلہ جاری ہوگا تو ملزم کو بھی اس کا حق ملے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست