ہم جیسے لکھنے والوں کے ساتھ ایک مصیبت یہ ہے کہ جب بھی کسی موضوع پر قلم اٹھانے لگتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ اساتذہ میں سے پہلے ہی کوئی اس پر شاہکار مضمون تحریر کر چکا ہے۔
آج میرا ارادہ تھا کہ ٹی وی پر چلنے والے اذیت ناک اشتہارات کے بارے میں لکھوں لیکن پھر ابنِ انشا کا مضمون ’اشتہارات ضرورت نہیں ہیں کے‘ یاد آ گیا۔ اب بھلا بتائیے اس کے بعد ہماری کیا دال گلے گی۔
دوسری مشکل یہ ہے کہ فی زمانہ طنزیہ تحریر لکھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کیونکہ اکثر لوگ مذاق میں کی گئی بات کو سنجیدہ سمجھ لیتے ہیں اور سنجیدگی کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر ایک واقعہ پیش ہے۔
چند ادیب قسم کے لوگ کسی جگہ جمع تھے وہاں احمد ندیم قاسمی صاحب کی شاعری کا ذکر چھِڑ گیا تو ایک نوجوان نے کہا کہ صاحب جانے دیجیے، انہیں تو ایک مصرع بھی ڈھنگ سے کہنا نہیں آتا۔
سب ہکے بکے رہ گئے۔ کسی نے پوچھا کہ برخوردار یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو، تو برخوردار نے بڑی رسان سے جواب دیا کہ ندیم صاحب نے خود یہ بات کہی تھی کہ صاحبو ہمیں تو ڈھنگ سے مصرع بھی کہنا نہیں آتا۔
اب آپ ہی بتائیے بندہ کس دیوار میں سر مارے! لیکن میں آج کے موضوع کو نہیں چھوڑوں گا، کیا فرق پڑتا ہے کہ ابنِ انشا اس پر لکھ چکے ہیں، میں اگر اس طرح سوچنے بیٹھ گیا تو پھر تو دکان بڑھانی پڑے گی۔
کرکٹ ورلڈ کپ تو ختم ہو گیا ہے مگر میرا غصہ ابھی باقی ہے۔ کہنے کو تو یہ تمام میچ براہ راست دکھائے گئے مگر حقیقت یہ ہے کہ اشتہارات کے وقفے کے دوران میچ دکھایا گیا، اور اشتہارات بھی ایسے کہ جن میں نہ کوئی تخلیقی پن اور نہ کوئی جدت۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واٹر کولر اور ہاٹ پوٹ کا اشتہار ہی دیکھ لیں۔ جناب فواد خان چائے کا کپ ہاتھ میں لے کر بیٹھتے تھے اور گردن گھما کر کیمرے کی طرف یوں دیکھتے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ بس میری خوبصورتی چیک کرو اور کچھ نہ پوچھو۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ ماڈل کا یہی کام ہوتا ہے کہ پراڈکٹ کے ساتھ اپنی تصویر بنوا لے، ٹھیک ہے، یہ رعایت بھی دی جا سکتی ہے، مگر جو ماڈلنگ فواد خان نے کی، اس پر موصوف کو Worst Model of the Year کا تمغہ ملنا چاہیے۔
چلیے آگے چلتے ہیں، اس سے بھی زیادہ اذیت ناک اشتہار دھلائی والے پاؤڈر کے ہیں۔ ان اشتہارات میں ماڈلنگ تو ٹھیک ہے مگر اشتہار اس قدر بے سروپا ہے کہ بندہ دیکھ کر سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کون لوگ ہوتے ہیں جو ایک دوسرے پر سالن کے ڈونگے پھینک کر کھانا کھاتے ہیں۔
یعنی گھر کے لوگ کھانے کی میز پر بیٹھے ہیں، خاتون خانہ کھانا پروس رہی ہے کہ یکدم وہ نہایت بھونڈے انداز میں قورمے سے بھرا ہوا ڈونگہ اپنے شوہر پر الٹ دیتی ہے، اور اس سے پہلے کہ شوہر کچھ بولے، بیوی جھٹ سے کہتی ہے ’برائٹ سب رائٹ کر دے گا‘ اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔
آپ کہیں گے کہ اشتہار وں میں کسی حد تک مبالغہ آرائی کی گنجائش تو ہوتی ہے، یہ بات تسلیم ہے مگر مبالغہ آرائی کو تخلیقی انداز میں استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ بھونڈے طریقے سے۔
’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘ والی ٹیگ لائن تو اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ پہلے بچوں کو کیچڑ میں لت پت کیا جاتا ہے اور جب وہ باقاعدہ بھوت بن جاتے ہیں تو ماں صدقے واری ہو کر کہتی ہے کہ ’داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔‘
بندہ پوچھے آج کل کے امیر گھرانوں کے بچے کہاں ایسے کھیلتے ہیں، یا تو آپ غریب مسکین بچے دکھائیں جو موٹر مکینک کی ورکشاپ پر کام کے دوران اپنے کپڑے گندے کر لیتے ہیں، ان کپڑوں پر لگے ہوئے داغوں کے بارے میں کہیں کہ یہ اچھے ہوتے ہیں تو بات بھی بن جائے۔
یہ اور بات ہے کہ مکینک کا کام کرنے والے ننھے منے بچوں کے کپڑوں پر لگے داغ تو مٹ سکتے ہیں مگر قوم کے چہروں پر لگے بدنما دھبے نہیں مٹ سکتے۔
اب آپ کہیں گے کہ اشتہار وں میں کسی حد تک مبالغہ آرائی کی گنجائش تو ہوتی ہے ورنہ تو کوئی اشتہار ہی نہ بن سکے۔
یہ بات بھی تسلیم ہے مگر مبالغہ آرائی کو تخلیقی انداز میں استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ بھونڈے طریقے سے۔ اگر آپ اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اشتہار میں گانے کی دھن ہی اچھی بنا لو۔
ہمارے زمانے میں میٹروملن اگربتی کا اشتہار چلا کرتا تھا، کیا خوبصورت اشتہار تھا جس کے بول مجھے آج بھی زبانی یاد ہیں: ’گلوں کی سیج سے شبنم چرا کے لائے آئے ہیں، آپ کے نام تحفہ اک تحفہ مہک کا لائے ہیں۔ ۔ ۔ میٹرو ملن۔۔۔‘
نیرہ نور کی آواز تھی اور کیا کمال گائیکی تھی۔ ماڈل بھی بےحد حسین تھی اور فلمبندی بھی خوب تھی۔ اب وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی!
80 اور 90 کی دہائی کی بات چلی ہے تو کچھ اور اشتہارات ذہن میں آ گئے اور یہ بھی محض اپنی موسیقی کی وجہ سے یاد ہیں۔
ایک اداکارہ نیلما حسن ہوا کرتی تھیں، اپنے نام کی طرح خوبصورت۔ ڈینٹونک کے اشتہار میں آتی تھیں، اک چٹکی ڈنٹونک سے چٹکی بجاتے ہی، دانت سفید اور چمکدار۔۔۔
اور وہ کیوی پالش کا اشتہار: ’پیارے بچو کیوی کیا ہے، کیوی ایک پرندہ ہے۔۔۔‘
میں معافی چاہتا ہوں کچھ ناسٹلجیا کا شکار ہو گیا، ایسی بات نہیں کہ اب کوئی اچھا اشتہار نہیں بنتا، جو اشتہار مجھے پسند ہے وہ ایئر کنڈیشنر کا ہے نواز الدین صدیقی اور عائشہ خان پر فلمایا گیا ہے۔ اصل میں یہ تین چار اشتہارات ہیں جن میں میاں بیوی کی نوک جھونک دکھا کر ائیر کنڈیشنر کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں۔
اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگر ہدایت کار قابل ہو تو کیسے جاندار اشتہارات تخلیق کر سکتا ہے۔
جس زمانے کی میں بات کر رہا ہوں اس زمانے میں بھارتی دور درشن پر تلاش گمشدہ کے اشتہارات بھی نشر ہوتے تھے۔ یہ اشتہارات پنجابی میں ہوتے تھے اور انہیں ’گواچیاں بارے سُوچنا‘ کہا جاتا تھا۔
ان میں کچھ اس قسم کا اعلان کیا جاتا تھا کہ ’ایک لڑکا جس کی عمر 18 سال ہے، قد پانچ فٹ چھ انچ، چہرے پر زخم کا نشان، شکر وار سے لاپتہ ہے، جسے ملےوہ نیچے دیے گئے پتے پر رابطہ کرے، اطلاع دینے والے کو شکرانے کے طور پر پانچ سو روپے دیے جائیں گے۔‘
ہمیں بھی ان اشتہارات سے کچھ سبق سیکھنا چاہیے اور نمونے کے طور پر ایسے اشتہارات چلانے چاہییں کہ ’اس ملک میں جمہوریت عرصہ دراز سے لاپتہ ہے، جس کو ملے وہ شاہراہ دستور پر پہنچا دے، اطلاع دینے والے کو یقین دلایا جاتا ہے کہ اسے لاپتہ نہیں کیا جائے گا۔‘ والسلام۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔