اختر عثمان نظم و غزل کے ممتاز شاعر تو ہیں ہی، ان کا ایک اور اعزاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے 21ویں صدی میں میر انیس اور مرزا دبیر کی روایت زندہ رکھی ہے۔
اختر کلاسیکی انداز میں مرثیہ کہتے ہیں اور اسے اپنے مخصوص انداز میں پڑھتے ہیں جس ایک عہد زندہ ہو کر آنکھوں کے سامنے متشکل ہو جاتا ہے۔
اختر کہتے ہیں کہ ’مرثیہ واقعۂ کربلا سے پہلے بھی لکھا جاتا تھا لیکن واقعۂ کربلا کے بعد یہ اسی سے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ یہ دنیا کا واحد واقعہ ہے جس نے نہ صرف نئی اصنافِ سخن کو جنم دیا بلکہ پہلے سے موجود جو صنفِ مرثیہ تھی وہ اسی کے نام ہو کر رہ گئی۔‘
اختر عثمان کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ اب تک ان کی شاعری کی پانچ کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ شاعری کے علاوہ وہ تنقید بھی لکھتے ہیں اور حال ہی میں انہوں نے عظیم فارسی شاعر مرزا عبدالقادر بیدل کے بارے میں مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔
اردو میں مرثیے کی روایت کیسے شروع ہوئی اور اس کے لیے مسدس کی صنف کیسے استعمال ہوئی، اس کے بارے میں اختر نے کہا: ’میر ضمیر نے اردو مرثیہ شروع کیا اور اس کے نو اجزا مقرر کیے چہرہ، سراپا، رخصت، آمد، جنگ، رجز، بین، شہادت، دعا۔ ‘
اختر نے اپنے بارے میں بتایا: ’میں کلاسیکی مرثیہ لکھتا ہوں، جدید موضوعاتی مرثیہ نہیں لکھتا۔ ان میں فرق یہ ہے کہ کلاسیکی مرثیے میں دو ڈھائی سو بند ہوتے ہیں، جن میں پورے اجزا آ جاتے ہیں۔ میں نے اسے اختیار کر کے انیس کی روایت اختیار کی ہے۔ ‘
پورا مرثیہ سنیے: