اسلام آباد انتظامیہ یعنی کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ’سی ڈی اے‘ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ سالانہ انتظامی خسارے کو پورا کرنے کے لیے ٹیکسز میں 25 فیصد اضافے کا پلان بنایا گیا ہے جس کی باضابطہ منظوری ہونا ابھی باقی ہے۔
شعبہ مالی امور کے سربراہ میاں طارق نے بتایا ہے کہ اسلام آباد کی جائیداد کی ویلیو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی پراپرٹی کے برابر ہے تو ’اس کے مقابلے میں چارجز کچھ بھی نہیں ہیں۔ شہر سے پراپرٹی، پانی و کنزرویشن ٹیکس کی مد میں تین ارب روپے اکٹھے ہوتے ہیں جبکہ ہمارے اخراجات 10 ارب روپے کے ہیں۔‘
اسلام آباد انتظامیہ نے پراپرٹی اور پانی کے سپلائی چارجز پر ٹیکسز میں اضافے کا پلان تیار کیا ہے۔ اس کے بعد گھروں اور کمرشل عمارتوں کے مالکان کو پراپرٹی اور پانی کی سپلائی پر کم از کم 25 فیصد مزید ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
یہ اقدام اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے رہائشیوں کو فراہم کی جانے والی سہولیات و خدمات اور موصول شدہ آمدنی کے فرق کو کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ان مجوزہ ٹیکسز پر 27 تاریخ کو عدالت میں رائے لی جانی تھی تاہم کچھ سیکٹرز کے رہائشیوں نے تحفظات ظاہر کیے جب کہ کچھ رہائشی حاضر نہیں ہوئے۔
میونسپل کارپوریشن اسلام آباد کے چیف افسر رانا محمد وقاص انور کی سربراہی میں کمیٹی نے واٹر چارجز اور پراپرٹی ٹیکس میں اضافے کے لیے تجاویز تیار کی ہیں۔ اسی کمیٹی نے پراپرٹی، پانی اور کنزرویشن چارجز میں 25 فیصد اضافہ کی تجویز دی ہے۔ اس کے علاوہ کمیٹی نے پلاٹ کے سائز اور سیکٹر کے حساب سے ٹیکس متعارف کروانے کی تجویز بھی دی ہے۔ جبکہ نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز اور نان سیکٹرز ایریا پر بھی ٹیکس لگانے کی تجویز تیار کی گئی ہے۔
اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے رکن اور ڈائریکٹر اکاؤنٹس میاں طارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ نے پراپرٹی و دیگر ٹیکسز میں 25 فیصد اضافے کی تجویز دی ہے۔
میاں طارق کیپیٹل ڈولپمنٹ اتھارٹی میں ہیڈ آف ٹیزری بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’شہر میں سی ڈی اور ایم سی آئی جتنی خدمات دے رہا ہے، انہیں نقصان ہی ہو رہا ہے۔ سڑکیں، سٹریٹ لائٹس وغیرہ کتنی بھی سہولیات دی جا رہی ہیں اس سب کی بہت معمولی سی رقم لی جا رہی ہے۔‘
کمیٹی کے رکن نے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس سوسائٹی کے مقابلے میں اسلام آباد انتظامیہ کوئی خاص رقم وصول نہیں کر رہی۔ مجوزہ اضافہ میں عوامی رائے کے بعد شاید کمی بھی کی جا سکتی ہے۔
یاد رہے اس سے قبل ٹیکسز میں 160 فیصد اضافہ سال 2019 میں ہوا جو گذشتہ اضافے کے 20 سال بعد ہوا، یہ سال 2000 میں ہوا۔ 2019 میں ٹیکسز میں 300 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا تھا۔
میاں طارق نے مزید کہا کم از کم 25 فیصد اضافہ اتنا زیادہ نہیں کیونکہ شہر کے ساتھ واقع بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے صرف پانی اور کنزرویشن چارجز کی مد میں اتنی بڑی رقوم وصول کر رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے سوال کیا کہ ’سات ارب روپے پھر کیسے پورے کیے جاتے ہیں؟‘ ان کا جواب تھا کہ ’اسی لیے انتظامیہ پلاٹ بیچتی ہے۔ ہم کب تک اپنے گھر کی چیزیں بیچیں گے؟ صرف سٹریٹ لائٹس کا ایک ماہ کا ایک ارب خرچہ ہے جو سال کا 12 ارب روپے بنتا ہے۔ جبکہ پانی پر 24 ارب اور تنخواہیں شامل کر کے سال کے 50 ارب سے زائد اخراجات بنتے ہیں۔‘
کمیٹی رکن نے کہا کہ ’بحریہ ٹاؤن گیس، پانی و دیگر سہولیات نہ ہونے کے باوجود کم سے کم سات ہزار روپے رہائشیوں سے کنزرویشن چارجز کی مد میں وصول کرتا ہے۔‘
’ایسے میں اگر انتظامیہ کا تجویز کردہ 25 فیصد ٹیکس میں اضافہ ہوتا ہے تو اسلام آباد کے 10 مرلہ گھر کے رہائشیوں سے 85 ہزار روپے سالانہ پراپرٹی ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ یہ رقم اس وقت تقریباً 70 ہزار وصول کی جا رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یاد رہے رہائشیوں کو پراپرٹی ٹیکس میں 50 فیصد چھوٹ دی جا سکتی ہے اگر وہ اس پلاٹ پر خود رہ رہے ہوں اور کسی اور کو گھر یا عمارت کرائے کے لیے نہ دی گئی ہو۔ جبکہ دوسری ری بیٹ فیس ہوتی ہے۔
اسلام آباد میں واقع سیکٹر ایف ایٹ کے رہائشی مدثر سعید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا ’ٹیکسز کسی بھی معاشرے کے لیے اچھی چیز ہوتے ہیں لیکن جو افراد بار بار ٹیکس دے رہے ہیں اور کچھ افراد ایسے ہیں جو بالکل ہی ٹیکسز ادا نہیں کر رہے، اس کے لیے انتظامیہ کی کیا حکمت عملی ہے؟‘
انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا ’سی ڈی اے جن سہولیات کے لیے ٹیکسز وصول کر رہی ہے کیا وہ عوام کو دے بھی رہی ہے؟ اس شہر میں پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے، سی ڈی اے کی جانب سے دیا گیا پانی کئی روز نہیں آتا، جبکہ متعدد سٹریٹ لائٹس کام نہیں کر رہیں۔‘
واضح رہے اگر رہائشی خود اپنے گھر میں رہ رہے ہوں تو قانون کے مطابق دو سال کے لیے ری بیٹ فیس معاف ہو سکتی ہے۔
مدثر نے بتایا کہ ’افسر شاہی کے نظام میں بیٹھے افسران رعایت جو ہمارا حق ہے، وہ بھی دینے کو تیار نہیں۔ متعلقہ سی ڈی اے کو بتانے کے باوجود مجھے دو سال کی فیس معاف نہیں کی گئی اور اس کے بجائے ایک سال کی فیس لی گئی۔ قانونی طور پر میں دو سال کی فیس ادا کرنے کا مجاز نہیں تھا۔‘
اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن کے رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے سب سیکٹر میں سی ڈی اے کا پانی دو روز میں ایک مرتبہ صرف دو گھنٹے صبح سات سے نو بجے تک آتا ہے۔
انہوں نے کہا ’اگر ہفتے میں تین مرتبہ پانی دو دو گھنٹے کے لیے آئے گا تو ہم پانی کا مکمل ٹیکس کیسے ادا کر سکتے ہیں؟ اسی مسئلے کی وجہ سے ہم پانی کے لیے بورنگ کروانے پر مجبور ہوئے۔‘
ان ٹیکسز میں اضافے کی حتمی منظوری وفاقی حکومت سے دے گی اور ٹیکسز کا نفاذ آئندہ مالی سال جولائی 2024 سے ہو گا۔