پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان 2016 میں ٹیسٹ سیریز کا پہلا ٹیسٹ لارڈز کے تاریخی گراؤنڈ میں کھیلا جا رہا تھا۔ ٹیسٹ کے پہلے دن سے ہی پاکستان نے اپنی گرفت مضبوط کر لی تھی اور آخری دن تک اس کا مظاہرہ کرتی رہی۔
میچ میں کئی دلچسپ مناظر دیکھنے میں آئے لیکن وہ منظر انگلش تماشائیوں کے لیے بہت عجیب تھا جب پوری ٹیم فتح حاصل کرنے کے بعد مصباح الحق کی قیادت میں زمیں پر فوجیوں کی طرح لیٹ گئی اور پھر اٹھ کر پویلین کی طرف اسی طرح سلیوٹ کیا جیسے فوجی کرتے ہیں۔ اس وقت میرے برابر میں بیٹھے ہوئے ایک انگریز صحافی نے مضحکہ خیز انداز میں مجھ سے کہا کیا اب یہ ٹیم محاذ پر لڑنے جائے گی؟
مصباح الحق کو ہیڈ کوچ بنانے کی خبریں جب سننے میں آئیں تو میں نے سوچا شاید اب اس ٹیم کے ساتھ فوجیوں والا سلوک ہونے والا ہے۔
خاموش طبیعت کے کم گو مصباح کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ایک سدھائے ہوئے گھوڑے کی طرح کوچ کے دیے ہوئے پلان پر پوری طرح عمل کرتے تھے اسی لیے انھیں دفاعی حکمت عملی کا کپتان کہا جاتا ہے۔ بلکہ معروف تبصرہ نگار اور سابق ٹیسٹ کرکٹر رمیز راجہ انھیں کمزور کپتان گردانتے ہیں۔
ان کی نظر میں مصباح میں جنگجویانہ فطرت کم ہے اسی لیے کئی ٹیسٹ ایسے میچ تھے جہاں پاکستان جیت سکتا تھا، لیکن مصباح کی دفاعی حکمت عملی وہاں فتح کے راستے میں رکاوٹ بن گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن وہ مصباح کا کپتانی کا دور تھا اور ان پر دباؤ تھا کہ ٹیم کی رینکنگ بہتر کرنی ہے اسی لیے ان کے دور میں پاکستان کی زیادہ تر سیریز ہوم ہی رہیں جو عرب امارات میں کھیلی گئیں۔ اپنی مرضی کی سپن بولنگ کی مددگار وکٹیں بنائی گئیں اور سعید اجمل اور یاسر شاہ کے ذریعے جیتی گئیں۔
کپتانی کے دوران ان پر کچھ ایسے دباؤ بھی آئے کہ وہ سست کھیلتے ہیں لیکن سست روی سے بیٹنگ کی بدولت ہی کئی دفعہ پاکستان شکست سے بچ سکا۔ مصباح کا کپتانی کا دور اگرچہ کسی سکینڈل یا چپقلش سے پاک رہا لیکن کئی کھلاڑی ان کی عدم توجہی کا شکار رہے اور کچھ کھلاڑی اپنا صحیح استعمال نہ کیے جانے کے بین کرتے رہے۔
لیکن اب ان کے لیے ایک الگ امتحان گاہ ان کا انتظار کر رہی ہے جہاں ان کے سپاہی تو وہی کھلاڑی ہوں گے جن کی عدم تسلسل آمیز کارکردگی نے مکی آرتھر کو گھر کا راستہ دکھا دیا ہے، لیکن ان کا سامنا اب ہر میچ کے بعد ایسے کہنہ مشق صحافیوں سے ہونے والا ہے جو چھوٹی سی غلطی کو رائی کا پہاڑ بنانے میں مہارت رکھتے ہیں۔
کھلاڑیوں کے انتخاب سے لے کر ان کی کارکردگی تک مصباح ایک ایسے کنویں میں کودنے جارہے ہیں جہاں سے باعزت واپسی ناممکن ہوتی ہے۔
اگرچہ ان کے ساتھ بحیثیت بولنگ کوچ وقار یونس موجود ہیں لیکن ان کا کتنا کردار ہو گا اور کہاں تک وہ مصباح کے کام میں مداخلت کریں گے اس کا ادراک قطعاً مشکل نہیں ہے کیونکہ ماضی میں وقار یونس جب بھی کوچ رہے تو ٹیم میں کھلاڑیوں کو ان کی ٹریننگ کے طریقہ کار پر اختلاف رہا۔ جارح مزاج کے وقار یونس کھلاڑیوں سے گفتگو میں بہت سختی سے پیش آتے تھے اور سلیکشن کے معاملات میں ان کی دخل اندازی کبھی بھی کسی کو بھائی نہیں۔
75 ٹیسٹ، 162 ون ڈے اور 39 ٹی 20 کھیلنے والے مصباح اب گراؤنڈ سے باہر کھیل کر ایک ایسی اننگز کی تیاری کریں گے جس میں انھیں ہر روز جواب دینا ہو گا۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ ساتویں نمبر پر پہنچی ہوئی ٹیم کو پھر سے ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ان کے لیے ہمالیہ پہاڑ سے کم نہ ہو گا کیونکہ ٹیم میں کپتانی کے معاملے پر زبردست گروہ بندی ہے اور کارکردگی کا گراف تنزلی کا شکار ہے۔