پاکستانی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان ’امن مذاکرات‘ کے خاتمے کا ایک سال 29 نومبر 2023 کو پورا ہو گیا۔ اس دوران ٹی ٹی پی کی جانب سے خیبرپختونخوا سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں حملوں کا سلسلہ جاری رہا اور غیر سرکاری تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں ایک سال کے دوران 835 حملے کیے گئے، جب کہ پچھلے سال یہ تعداد 425 تھی، گویا حملوں میں تقریباً دو گنا اضافہ ہوا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے شدت پسندی پر نظر رکھنے والے ماہرین سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ شدت پسندی کی لہر میں اضافے کا حل کیا ہو گا اور کیا مستقبل میں مذاکراتی عمل دوبارہ شروع ہو سکتا ہے اور اگر نہیں تو اس مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟
شدت پسندی اور شدت پسند تنظیموں پر تحقیق کرنے والے محقق عبدالسید سویڈن میں مقیم ہیں اور پاکستان اور افغانستان میں شدت تنظیموں پر تحقیق کرتے ہیں اور اس موضوع پر کئی مقالے لکھ چکے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستانی طالبان نے جنگ بندی اور مذاکرات سے بھرپور فائدہ اٹھایا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’پچھلے سال کے مذاکراتی دور کا زیادہ فائدہ ٹی ٹی پی کو اس حوالے سے ہوا ہے کہ اس تنظیم نے افغان طالبان کے ساتھ رسمی تعلقات کی تجدید کی اور وفاداری ثابت کی کیونکہ افغان طالبان نی ٹی ٹی پی کو مذاکرات پر آمادہ کیا تھا۔
پاکستان میں نومبر 2022 میں نئی آنے والی سیاسی و فوجی قیادت نے ہر قسم کے مذاکرات کو مسترد کرتے ہوئے افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے حملوں کا ذمہ دار قرار دیا ہے جبکہ افغان طالبان کا یہی موقف ہے کہ یہ پاکستان کا اندورنی مسئلہ ہے۔‘
دوبارہ مذاکرات؟
اس سال جنوری میں اس وقت کے وزیر خارجہ بلاؤل بھٹو زرداری واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان دوبارہ مذاکرات کے موڈ میں نہیں ہے۔ امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ کو ڈیووس، سوئٹزرلینڈ میں دیے گئے انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’پاکستان میں نئی سیاسی اور عسکری قیادت کا موقف اس حوالے سے واضح ہے۔ ان دہشت گرد تنظیموں سے کوئی بات نہیں ہو گی جو ہمارے قوانین اور آئین کا احترام نہیں کرتیں۔‘
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس سال جون میں بھی کہا تھا کہ پاکستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات میں شامل نہیں ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ کا یہ بیان طالبان کے وزیر اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باعث ثالثی کی پیشکش کے بعد سامنے آیا تھا۔
ذبیح اللہ مجاہد کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ’اگر پاکستان چاہتا ہے کہ ہم ثالثی کریں، اور ہم جانتے ہیں کہ یہ فائدہ مند ہے، تو ہم بلاشبہ ثالثی کریں گے کیونکہ اس سے خطے کو فائدہ ہوتا ہے اور ہم خطے میں جنگ نہیں چاہتے۔‘
افغان طالبان کی قیادت یہ بھی کہہ چکی ہے کہ وہ ایک بار فریقین کے درمیان مذاکرات کی کوشش کا اپنا فرض ادا کرچکے ہیں۔
حملوں میں شدت
عبدالسید نے بتایا کہ ’نومبر 2021 سے اکتوبر 2022 تک ٹی ٹی پی نے 288 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جبکہ نومبر 2022 سے لے کر اکتوبر 2023 تک یہ حملے 871 تک پہنچ گئے ہیں۔‘
یہ اعداد و شمار ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں جبکہ جنوبی ایشیا میں شدت پسند حملوں کی اعدادوشمار مرتب کرنے والے غیر سرکاری ادارے ساؤتھ ایشیا ٹیررزم پورٹل کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2022 میں 365 حملوں کے مقابلے میں جنوری 2023 سے 27 نومبر 2023 تک پاکستان میں 835 حملے ہوئے۔
اس پورٹل کے مطابق ان حملوں میں 2022 میں 229 عام شہری، 379 سکیورٹی فورسز کے اہلکار جبکہ 363 شدت پسند مارے گئے۔
جبکہ 2023 میں مجموعی طور پر ان حملوں میں 350 عام شہری، 485 سکیورٹی اہلکار اور 507 شدت پسند مارے گئے۔
خودکش حملوں کی بات کی جائے تو پورٹل کے مطابق افغان طالبان کے افغانستان میں اقتدار میں آنے سے پہلے 2020 میں پاکستان میں تین حملے(25 اموات)، 2021 میں چار(21 اموات) جبکہ 2022 میں یہ حملے 13(96اموات) اور 27نومبر 2023 تک پاکستان میں 30 خودکش (238 اموات) حملے ہوئے ہیں۔
پاکستان فوج کے مطابق گذشتہ چند مہینوں میں سرحد پار سے شدت پسندوں نے چترال کے علاقے کیلاش وادی میں دراندازی کی کوشش کی تھی جس میں کچھ سکیورٹی اہلکار بھی جان سے گئے جبکہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں پاکستان فوج نے کئی شدت پسندوں کو مارنے کا اعلان کیا تھا۔
عبدالسید سے جب پوچھا گیا کہ ’افغان طالبان کے ساتھ پاکستان کے موجودہ تعلقات کا کیا ٹی ٹی پی کے حملوں کے ساتھ کوئی تعلق ہے، تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ٹی ٹی پی کا نہ صرف پاکستان و افغانستان کے سرحدی علاقوں بلکہ ملک کے اندر بھی ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے اور اسی وجہ سے افغان طالبان تمام تر کوششوں کے باوجود ٹی ٹی پی کے حملے نہیں روک سکتے۔‘
عبدالسید نے بتایا کہ ’ان حالات کی وجہ سے پاکستان اگر افغانستان کے اندر کوئی کارروائی (ٹی ٹی پی کے خلاف) کرے گا تو اس اور حالیہ افغان پناہ گزینوں کی انخلا کے باعث دونوں ممالک کے تعلقات مزید خراب ہوں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سال 2022 میں پاکستان میں نئی آنے والی سیاسی و فوجی قیادت اگر مذاکراتی عمل کو سنجیدہ لے کر اس کو آگے بڑھاتی تو یقینی طور پر اس سے ٹی ٹی پی کمزور اور اندرونی اختلافات کا شکار ہوسکتی تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔‘
ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی دور: کب، کیا ہوا؟
صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان اور ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ بیرسٹر محمد علی سیف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات اگست 2021 میں افغان طالبان کے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد شروع ہوئے تھے اور یہ سلسلہ چلتا رہا۔‘
اس کے بعد جون 2022 میں پاکستان سے قبائلی مشران اور قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے کچھ اراکین اسمبلی پر مشتمل جرگہ ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کے لیے کابل گیا تھا، جس کی تصدیق ٹی ٹی پی اور افغان طالبان نے بھی کی تھی۔
خیبر پختونخوا حکومت کے اس وقت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کی سربراہی میں بھی ایک نمائندہ وفد ٹی ٹی پی سے ملاقات کے لیے کابل گیا تھا۔
جس کے حوالے سے ترجمان خیبرپختونخوا حکومت نے اس وقت انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ’بات چیت بہت اچھے ماحول میں ہوئی۔‘
اس کے بعد مذاکرات کا یہ عمل اس وقت تعطل کا شکار ہو گیا جب افغانستان میں ٹی ٹی پی کے مرکزی رہنما اور ٹی ٹی پی مذاکراتی کمیٹی کے رکن عمر خالد خراسانی کو گذشتہ برس نامعلوم افراد کی جانب سے بم حملے میں قتل کر دیا گیا۔
ٹی ٹی پی کے حمایت یافتہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے اس واقعے کا الزام پاکستان پر عائد کیا تھا۔
تاہم بیرسٹر محمد علی سیف نے اس وقت واضح طور پر یہ بتایا تھا کہ ’ٹی ٹی پی نے اگر یہ الزام پاکستان پر لگایا تو مذاکرات تعطل کا شکار ہو سکتے ہیں۔‘
اس کے بعد ضلع سوات میں گذشتہ سال طالبان کی دوبارہ واپسی اور ان کی جانب سے ایک پولیس اہلکار اور دو سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنانے پر بھی شدید تنقید کی گئی تھی جس کے خلاف سوات سمیت صوبے بھر میں عوامی مظاہرے کیے گئے تھے۔
بیرسٹر سیف نے سوات میں طالبان کی واپسی کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’سوات میں طالبان کمانڈر شدت پسندی کے لیے نہیں بلکہ اپنی بیمار بہن کی عیادت کے لیے آئے تھے۔‘
ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکومت کے مابین مذاکراتی دور کے شروع ہوتے ہی فائر بندی کا اعلان کیا گیا تھا تاہم مذاکرات کے دوران بھی ٹی ٹی پی نے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں سکیورٹی فورسز کے جوانوں، پولیس اور سابق امن کمیٹی کے کچھ اراکین کو نشانہ بنایا اور ٹی ٹی پی کی جانب سے یہی کہا گیا کہ وہ یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کر رہے ہیں۔
تاہم 29 نومبر 2022 کو باضابطہ طور پر ٹی ٹی پی نے دوبارہ حملوں کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا جو ابھی تک جاری ہے۔
کیا مستقبل میں شدت پسندی میں اضافہ ہو گا؟
رفعت اللہ اورکزئی پشاور میں مقیم صحافی ہیں اور شدت پسندی کے حوالے سے گذشتہ تقریباً 20 سالوں سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہیں کہ ’افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ٹی ٹی پی کے حملوں میں واضح طور پر اضافہ ہوا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ ’گذشتہ ایک سال میں حملوں میں بھی اضافہ دیکھنے کو آیا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغانستان نے اب ماضی کے مقابلے میں زیادہ آزادی ہے اور وہ پاکستان میں شدت پسند حملے کر رہے ہیں۔‘
افغانستان میں طالبان انتظامیہ کے کئی عہدیدار متعدد بار پر ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی سے انکار کر چکے ہیں۔
جبکہ پاکستانی حکومت کے عہدیداروں نے اپنے بیانات میں کئی بار کہا ہے کہ ’ٹی ٹی پی کے شدت پسند افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔‘
رفعت اللہ کے مطابق ’پاکستان میں سیاسی و فوجی قیادت کی تبدیلی کے بعد ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائیاں بھی زیادہ کی گئیں ہیں اور ماضی میں جب ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی باتیں ہو رہی تھیں، اب اس کے بالکل برعکس ٹی ٹی پی کے خلاف سخت بیانیہ اپنایا گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’افغانستان میں حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں میں اتنے حملے نہیں ہو رہے تھے جس طرح اب ہو رے ہیں۔ افغان طالبان کے آنے کے بعد جیلوں سے بھی ٹی ٹی پی کے لوگ رہا ہو گئے جبکہ ٹی ٹی پی میں کچھ چھوٹی تنظیمیں بھی شامل ہوئی ہیں۔‘
رفعت اللہ کے مطابق ’اس مسئلے کا حل صرف اور صرف مذاکرات ہی ہیں لیکن پاکستان نے ٹی ٹی پی کے خلاف سختی اب شروع کی ہے لیکن یہ ضرور کیا ہے کہ اب پاکستان نے بارڈر پر مزید سکیورٹی سخت کی ہے اور اسی طرح غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کو بھی اب واپس بھیجا جا رہا ہے۔‘
ان نے مزید بتایا کہ ’مستقبل میں ہمیں مزید کارروائیوں میں اضافہ نظر آ رہا ہے کیونکہ اب تو یہ باتیں بھی کی جا رہی ہے کہ پاکستان ٹی ٹی پی کے خلاف افغانستان میں تیر بہ ہدف کارروائیاں کرے گا۔‘
افغانستان کے اندر پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی سرکاری سطح پر ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی لیکن پاکستانی حکام کے مطابق پاکستان نے بارہا افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے کارروائیوں سے آگاہ کیا ہے۔