عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO) نے کہا ہے کہ 20ویں صدی کے مقابلے میں قطبی اور پہاڑی برف پگھلنے اور سمندر کی سطح تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے گذشتہ دہائی ریکارڈ پر گرم ترین دہائی رہی۔
گلیشیئرز ہر سال ’غیر معمولی‘ طور پر ایک میٹر تک پگھل رہے ہیں جبکہ براعظم انٹارکٹیکا میں برف کی چادر 2011 سے 2020 کے درمیان 2001 سے 2010 کے مقابلے میں 75 فیصد سے زیادہ برف پگھل چکی ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو تازہ پانی کم دستیاب ہو گا، جبکہ نشیبی ساحلی علاقوں کو بڑھتی ہوئی لہروں کی وجہ سے زیر آب آنے کا سامنا بھی کرنا ہو گا۔
ڈبلیو ایم او کے مطابق عالمی سطح پر گرین ہاؤس گیسوں میں کرونا وائرس کے دوران تھوڑی سی کمی کے باوجود اضافہ جاری ہے، 1990 کی دہائی کے بعد سے ہر دہائی گرم سے گرم تر ہو رہی ہے۔
ڈبلیو ایم او کے تجزیے کے مطابق 2011 اور 2020 کے درمیان، عالمی درجہ حرارت صنعتی سطحوں سے اوسط 1.1 ڈگری سیلسیئس زیادہ تھا۔
دہائی کے گرم ترین سال 2016 اور 2020 تھے جبکہ ان میں ریکارڈ پر ایک ساتھ چھ گرم ترین سال 2015 اور 2020 کے درمیان تھے۔
ڈبلیو ایم او کے سیکریٹری جنرل پروفیسر پیٹری ٹالاس نے کہا ہے کہ ’ 1990 کی دہائی کے بعد سے ہر دہائی پچھلی دہائی سے زیادہ گرم رہی ہے اور ہمیں اس رجحان کے تبدیل ہونے کا کوئی عندیہ نظر نہیں آرہا۔
’زیادہ تر ممالک کی جانب سے کسی بھی دوسری دہائی کے مقابلے میں ریکارڈ بلند درجہ حرارت رپورٹ کیا گیا ہے۔ سمندر بہت تیزی سے گرم ہو رہا ہے اور ایک نسل کے بھی کم عرصے میں سطح سمندر میں اضافے کی شرح تقریبا دگنی ہو گئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے پگھلتے گلیشیئرز اور برف کی چادروں کو بچانے کی جنگ ہار رہے ہیں۔‘
قطبِ شمالی دنیا میں کسی بھی خطے کے مقابلے پر زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے کیوں کہ سورج کی توانائی سفید برفانی سمندر کی سطح سے خلا میں منعکس ہونے کی بجائے تاریک رنگ کے سمندر میں جذب ہو رہی ہے۔ اس عمل کو ’البیڈو ایفیکٹ‘ کہتے ہیں۔
گرین لینڈ کی برف کی چادر پگھلنے کی وجہ سے پچھلی دہائی میں سطح سمندر میں سالانہ 4.5 ملی میٹراضافہ ہوا، جو کہ 2001 سے 2010 کے درمیان سالانہ 2.9 ملی میٹر تھا۔
اس میں صرف اچھی خبر یہ ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں کے مقابلے میں انٹارکٹیکا کے اوپر اوزون کی تہہ کم ہو رہی ہے اور کسی بھی آفت کے پیشگی وارننگ سسٹم میں بہتری آئی ہے، جس کے نتیجے میں کم لوگ زخمی اور کم ہی اموات ہوئی ہیں۔
ملکوں نے عہد کیا ہے کہ وہ درجۂ حرارت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کے مقابلے پر ڈیڑھ ڈگری سیلسیئس تک روک دیں گے، اور وہ دبئی میں کوپ28 کانفرنس میں اس ہدف کے حصول میں ہونے والے پیش رفت پر بحث کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ہفتے ڈبلیو ایم او نے عارضی اعداد و شمار جاری کیے جس کے مطابق 2023 اب تک کا سب سے گرم سال ہو گا۔ سائنس دان دنیا بھر کی حکومتوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ فوسل فیول کے استعمال کو تیزی سے ختم کرنے کا عہد کریں۔
پروفیسر ٹالاس نے کہا ہے کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں کو قابو سے باہر ہونے سے روکنے کے لیے ہمیں کرہ ارض کے لیے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو اولین ترجیح پر کم کرنا ہو گا۔‘
’ ہمارا موسم زیادہ سخت ہوتا جا رہا ہے، جس کے سماجی و اقتصادی ترقی پر واضح اور نمایاں اثرات پڑ رہے ہیں۔‘
’خشک سالی، ہیٹ ویو، سیلاب، ٹراپیکل سائیکلون اور جنگل کی آگ بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہی ہیں، زرعی پیداوار کو تباہ کر رہی ہیں، پانی کی سپلائی کو محدود کر رہی ہیں اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سبب بن رہی ہیں۔‘ متعدد مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ خاص طور پر گذشتہ دہائی میں شدید گرمی کے خطرے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‘