ریڈ سی فلم فیسٹیول: پاکستانی کینیڈین فلم ’ان فلیمز‘ نے انعام جیت لیا

جدہ میں ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے تیسرے ایڈیشن کی اختتامی تقریب میں ’ان فلیمز‘ نے ایک لاکھ ڈالر کا انعام جیتا۔

ہدایت کار ضرار خان کا کہنا تھا کہ یہ فلم تین لاکھ ڈالر کے بجٹ سے تیار کی گئی (ریڈ سی فلم فیسٹیول، انسٹاگرام)

سعودی عرب کے شہر جدہ میں ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے تیسرے ایڈیشن کی جمعرات کو ہونے والی اختتامی تقریب میں پاکستانی کینیڈین ہارر فلم ’ان فلیمز‘ نے ایک لاکھ ڈالر کا انعام جیت لیا۔

ویب سائٹ ورائٹی ڈاٹ کام کے مطابق ہارر فلم کے ہدایت کار ضرار خان کا کہنا تھا کہ یہ فلم تین لاکھ ڈالر کے بجٹ سے تیار کی گئی جو ریڈ سی فنڈ پروڈکشن کی گرانٹ کے مساوی رقم ہے۔

انہوں نے زور دیا کہ ’وہ ہر کوئی جسے فلم بنانے کے لیے گرانٹ ملتی ہے وہ فلم بنائے کیوں کہ تھوڑی رقم کے ساتھ فلم بنائی جا سکتی ہے۔‘

ریڈ سی فلم فیسٹیول کی ویب سائٹ میں  فلم کی کہانی کا تعارف ان الفاظ میں دیا گیا ہے۔

’ مریم میڈیکل کی طالبہ ہیں جو اپنی والدہ فرح اور چھوٹے بھائی کے ساتھ کراچی کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی ہیں۔

’جب ان کے والد قرض کا ایک پہاڑپیچھے چھوڑ کر فوت ہو جاتے ہیں تو ان کے ایک چچا قرضوں کو پورا کرنے کی پیشکش کے لیے آگے آتے ہیں، جس کے بعد وہ آہستہ آستہ مریم اور ان کی والدہ کو ان کے اپارٹمنٹ سے بے دخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

’قانونی نظام، جو خواتین کے خلاف ہے، انہیں کوئی تحفظ فراہم نہیں کرتا ہے۔ فرح، غمگین اور الگ تھلگ، لڑنے کے لیے بہت کم توانائی رکھتی ہیں۔ مریم ایک مہربان ساتھی طالب علم کے ساتھ رومانس میں پناہ لیتی ہیں لیکن ان کی ذہنی صحت خراب ہو رہی ہے۔

تقریب کے دوران فلسطین میں امن کے لیے پرجوش مطالبات کیے گئے۔

برطانوی نژاد فلسطینی فلم ساز اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن فرح نابلسی، جنہوں نے اپنی فلم ’دا ٹیچر‘ کے لیے جیوری ایوارڈ جیتا۔ انہوں  چند سال قبل فلسطین میں بہت دشوار حالات میں فلم کی شوٹنگ کی تھی۔ فلم میں ان مسائل کو اجاگر کیا جو آج کی اسرائیلی جارحیت کے ماحول میں سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے حاضرین کی جانب سے تالیوں کے جواب میں کہا کہ ’غزہ میں موجودہ تباہی پر توجہ نہ دینا میرے لیے شرمناک ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نابلسی کے مطابق: ’جو الفاظ ذہن میں آئے وہ طویل عرصہ پہلے فوت ہو جانے والے برطانوی فلاسفر برٹرینڈرسل کے ہیں جنہوں نے 1970 کی دہائی میں ایسا کہا تھا اور وہ فلسطین کا حوالہ دے رہے تھے۔ ’دنیا کب تک ظلم و ستم کا یہ تماشہ دیکھتی رہے گی۔‘

بہترین فیچر فلم کا سلور یوسر ایوارڈ ’ڈیئر جسی‘ کے لیے ترسیم سنگھ کو دیا گیا۔ انڈیا، کینیڈا اور امریکہ کی مشترکہ پروڈکشن میں بننے والی یہ فلم ایک کینیڈین پنجابی خاتون کی سچی کہانی پر مبنی ہے جنہوں نے اپنے خاندان کی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہتے ہوئے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص سے محبت کی اور ان سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں خاتون کو قتل کر دیا گیا۔

عالمی ذرائع ابلاغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سنگھ نے میڈیا سے درخواست کی کہ وہ ’غیرت کے نام پر قتل‘ کی اصطلاح کا استعمال بند کریں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’(آپ کی کلاس سے باہر) شادی کرنے کی صورت میں آپ کی بیٹی یا بہن کو قتل کرنے میں کوئی غیرت نہیں ہوتی۔‘

فلم فیسٹیول کے تیسرے ایڈیشن کی اختتامی تقریب میں ہالی ووڈ سٹارز نکولس کیج، گوینیتھ پالٹرو، ہیلے بیری، جیسن اسٹیتھم اور ایڈرین بروڈی بھی موجود تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فلم