دنیا کے مختلف ممالک مشروم کی کاشت کر کے اور انہیں برآمد کرکے اربوں ڈالر منافع کما رہے ہیں مگر پاکستان جیسا زرعی اور مختلف موسم رکھنے والا ملک مشروم کی برآمدات کے ذریعے محض چند فیصد منافع ہی کما رہا ہے۔
اسی سلسلے میں ایگری ٹورازم ڈویلپمنٹ آف پاکستان جیسا ادارہ کچھ عرصہ پہلے سامنے آیا اور اس نے ملک بھر میں کسانوں میں آگاہی اور فصل کی کاشت کو جدید طریقے سے اگانے اور اس سے زیادہ منافع کمانے کا پروگرام شروع کیا۔
یہ ادارہ پاکستان کے مختلف شہروں میں مختلف اجناس کے حوالے سے فیسٹیول اور سیمینار منعقد کرواتا ہے، جن میں کسان اور زراعت کے شعبے سے متعقلہ افراد شرکت کرتے ہیں۔
اس ادارے نے پاکستان میں مشروم کی کاشت پر 10 واں سالانہ فیسٹیول گذشتہ ماہ کے آخر میں کالاباغ کے نواحی علاقے ماڑی انڈس کے پرفضا مقام ’دریا کنارے‘ پر منعقد کروایا، جس میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس فیسٹیول میں مشروم کے سٹال لگائے گئے اور اس کی افادیت اور اہمیت کے علاوہ اسے برآمد کر کے زرمبادلہ کمانے کے بارے میں بھی بتایا گیا۔
ریحان قدیر ’او مشرومز‘ کے مالک ہیں، جو ایک چینی کمپنی کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور پاکستان میں مشروم کی کاشت کی ترقی کے لیے کوشاں ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مشروم کی تین اقسام ہیں جن میں کھانے والی، زہریلی اور ادویات میں کام آنے والی شامل ہیں۔
مشروم جسے عام زبان میں ’کھمبی‘ بھی کہا جاتا ہے، کے بہت سے فوائد ہیں۔ بقول ریحان قدیر، اس میں وٹامن ڈی کے علاوہ 90 فیصد پانی پایا جاتا ہے، جس میں آنکھوں کے لیے بھی شفا ہے۔
ریحان قدیر نے بتایا کہ مشروم کو شاہی خوراک بھی کہا جاتا ہے مگر پاکستان میں اس کے بارے میں کسی کو آگاہی نہیں ہے۔ ’حکومت کو چاہیے کہ اس کی کاشت پر کسانوں کو سبسڈی دے۔ صرف کسان کو بجلی پر سبسڈی دی جائے تو پاکستان مشروم کی برآمدات سے کروڑوں ڈالر کما سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حکومت کی طرف سے کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جو کسان کو مشروم کی کاشت کے بارے میں آگاہی دے یا انہیں کسی قسم کی سہولیات فراہم کرے۔ اصل میں المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں آج تک کاروباری سطح پر فروخت کے لیے مشروم کہیں نظر ہی نہیں آئی۔ یہ بازار میں مارکیٹوں میں یا کسی جگہ نظر آئے گی تو لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اس کی افادیت کیا ہے۔‘
بقول ریحان قدیر: ’مغربی ممالک میں اسے بہت بڑے بزنس کے طور پر لیا جا رہا ہے، ہم ابھی بھی مشروم باہر سے درآمد کر رہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک اس سے بہت سا پیسہ کما رہے ہیں جبکہ ہمارے کسان کے پاس اس کی کاشت کے بارے میں کسی قسم کی کوئی آگاہی پیدا ہی نہیں کی گئی، کسی فورم پر مشروم کو ڈسکس ہی نہیں کیا گیا۔
’دنیا بھر کے ممالک اسے کھا بھی رہے ہیں اور اسے برآمد بھی کر رہے ہیں۔ اس سے ادویات بن رہی ہیں، کروڑوں ڈالر زرمبادلہ بھی کما رہے ہیں، ہم بھی گذشتہ چار سال سے پاکستان میں مشروم متعارف کروا رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایگری ٹورازم کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا کسان کاشت کار تو ہے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک کاروباری بھی بن جائے۔ ’اسی سلسلے میں ہم پاکستان بھر میں سیمینار اور فیسٹیول منعقد کرواتے ہیں تا کہ ہمارے نوجوان، ہمارے کسان اور ہمارے پاکستانی اس کاروبار میں آئیں، ایک جگہ اکٹھے ہوں اور ہماری اکانومی مضبوط ہو۔‘