جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ کے نواحی علاقے خان گڑھ میں پولیس نے تین بچوں کو اغوا کر کے مبینہ طور پر بچوں کو قتل کر کے ان کا گوشت پکانے اور تقسیم کرنے والے ملزم کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کر دی۔
پولیس ترجمان مظفر گڑھ محمد وسیم نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’پولیس نے بچوں کے لواحقین کی جانب سے درخواست کے بعد ایک ڈیرے سے ملزم محمد بلال کو گرفتار کیا۔
’بچوں کو گذشتہ جمعے اغوا کیا گیا تھا لیکن پولیس نے تین دن پہلے سات سالہ علی حسن کو زندہ بازیاب کر لیا۔ دو بچوں، تین سالہ عبداللہ اور ڈیڑھ سالہ بچی حفصہ، کے جسم کی باقیات برآمد ہوئی ہیں۔‘
بچوں کے چچا سجاد حسین کے بقول، ’ملزم بلال نے ان کے تین بچوں کو اغوا کیا اور نامعلوم ڈیرے پر رکھا۔ ہمیں اطلاع ملی تو پولیس کے ساتھ موقعے پر پہنچے، ایک بچہ علی حسن زندہ مل گیا لیکن دو بچے ملزم نے سفاکی سے ذبحہ کر کے مار ڈالے اور ان کا گوشت پکا کر کھا لیا اور قریبی دربار پر بھی تقسیم کیا۔‘
پولیس ترجمان کے مطابق ’ملزم گرفتاری کے بعد بے ہوش ہوگیا تھا لہذا اسے ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ جہاں اسے طبی امداد دی گئی آج جمعے کے روز ڈاکٹروں نے اسے صحت مند قرار دیا ہے۔ ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے گا اور اس سے تفتیش کی جائے گی اور تمام شواہد سامنے لائے جائیں گے۔‘
ملزم کا سراغ کیسے ملا؟
متاثرہ بچوں کے چچا سجاد حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’ہم تینوں بھائی گذشتہ جمعے گھر پر موجود تھے۔ میرے ایک بھائی کا بیٹا عبداللہ اور دوسرے بھائی کا سات سالہ بیٹا علی حسن اور ان کی ڈیڑھ سالہ بہن حفصہ قریبی دکان پر ٹافیاں وغیرہ لینے گئے۔
’کچھ دیر بعد ہمیں خیال آیا کہ بچے گھر نہیں آئے کہاں گئے۔ انہیں تلاش کرنے باہر نکلے تو ہمارے ایک رشتہ دار عارف نے بتایا کہ انہیں بلال نامی شخص موٹر سائیکل پر لے جارہا تھا۔
’ہم نے ان کے گھر جا کر معلوم کیا تو وہ گھر پر موجود نہیں تھا۔ ہم نے ادھر ادھر تلاش شروع کر دی۔ تین دن پہلے ہمارے گھر ایک شخص پیغام لایا کہ آپ کے علی حسن نامی بچے نے اپنے گھر کا ایڈریس دیا اور پیغام پہنچانے کی درخواست کی۔
’ہم نے پولیس کو اطلاع دی اور پولیس کے ساتھ کچھ دور واقع ایک ڈیرے پر پہنچے۔ وہاں علی حسن موجود تھا جبکہ ملزم بلال بھی وہیں تھا۔ اسے پولیس نے فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار کر لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سجاد حسین کے مطابق، ’علی حسن نے ایک رات حواس بحال ہونے کے بعد ہمیں بتایا کہ ملزم بلال نے جمعے کے روز انہیں موٹر سائیکل پر سیر کرانے کے بہانے بیٹھایا اور کافی دور گنے کے کھیت میں عبداللہ نامی بچے کو قتل کر دیا۔
’میں نے چیخ ماری تو اس نے مجھے بھی مارنے کی دھمکی دی۔ پھر اس نے عبداللہ کے ٹکڑے کر کے گوشت تقسیم بھی کیا اور خود بھی پکایا۔ جبکہ حفصہ کو دو دن بعد گلہ دبا کر قتل کر دیا اور اس کے بھی ٹکڑے کر دیے۔‘
مقامی صحافی عدنان مجتبیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’دو دن پہلے جب پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا تو ہم صحافیوں کو کوریج کے لیے اطلاع دی گئی۔
’ہم موقعے پر پہنچے تو پولیس ملزم کو بے ہوش ہونے پر ڈی ایچ کیو ہسپتال مظفر گڑھ لے گئی۔ بچوں کے ورثا اور علی حسن نامی بچے سے بات چیت ہوئی تھی۔ ملزم کی بے ہوشی کے باعث ابھی تک نہ اس سے صحافیوں کی بات ہوئی نہ ہی پولیس نے تفتیش شروع کی۔‘
ان کے مطابق: ’مظفر گڑھ میں قتل وغارت اور اغوا کے کیس دیکھے لیکن یہ اپنی نوعیت کا عجیب واقعہ ہے۔‘
صحافی نے بتایا کہ یہ علاقہ مظفر گڑھ شہر سے کچھ کلومیٹر فاصلے پر خان گڑھ کے پسماندہ گاؤں چمرو والی میں پیش آیا۔
’اس معاملے میں کوئی ٹھوس وجہ سامنے نہیں آئی صرف اتنا معلوم ہوا ہے کہ ملزم کا اپنی بیوی سے جھگڑا چل رہا تھا۔ لیکن اس معاملے کا اس خاندان سے کوئی تعلق نہیں جن کے بچے اغوا کیے گئے۔ کسی دشمنی یا انتقام کی بھی کوئی صورت (بظاہر) دکھائی نہیں دیتی۔‘
پولیس کارروائی
پولیس ترجمان محمد وسیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملزم کو دو دن بعد آج جمعے کو ہوش آیا ہے۔ ملزم کو عدالت میں پیش کیا جائے گا اور تفتیش کی جائے گی۔‘
ترجمان پولیس کے مطابق، ’ڈاکٹروں نے ملزم کی صحت سے متعلق بتایا کہ وہ بالکل نارمل ہے، ذہنی و جسمانی صحت بالکل ٹھیک ہے۔ صرف (گرفتاری پر) دھچکا لگنے کی وجہ سے بے ہوش ہوا تھا اس کے ٹیسٹ بھی کلیئر ہیں۔‘
وسیم کے بقول، ’پولیس نے علی حسن نامی بچے کی نشاندہی پر گنے کے کھیت سے عبداللہ نامی بچے کے جسم کے اعضا، خون آلود کپڑے اور چھری برآمد کر لی ہے۔ تاہم حفصہ نامی بچی کے حوالے سے ابھی تک کچھ نہیں معلوم ہوسکا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پولیس قانونی طور پر متاثرہ خاندان کو مکمل قانونی امداد فراہم کر رہی ہے۔ ثبوتوں اور گواہوں کی مدد سے کوشش کی جائے گی کہ متاثرین کو عدالت سے انصاف دلایا جاسکے۔‘
پولیس ترجمان کے مطابق کماد کے کھیت سے ملنے والے جسمانی اعضا اور خون آلود کپڑے ڈی این اے کے لیے بھیج دیے ہیں۔
’پھر ہی حتمی طور پر کہا جاسکے گا کہ وہ ٹکڑے عبداللہ نامی بچے کے ہیں۔ کماد کی کٹائی بھی کرائی جارہی ہے تاکہ مزید شواہد مل سکیں۔‘
متاثرہ بچوں کے چچا سجاد حسین کے بقول، ’ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے ناحق ہمارے بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا ہے۔ اس درندہ صفت انسان کے خلاف سخت ترین کارروائی کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں ملزم بلال کو عبرت ناک سزا دلوائی جائے تاکہ ہمیں انصاف مل سکے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں: