لیبیا کے قریب کشتی ڈوبنے سے 61 تارکین وطن لاپتہ: اقوام متحدہ

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن (آئی او ایم) یاعالمی ادارہ برائے تارکین وطن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ لیبیا کے شمال مغربی ساحل پر زوارہ سے روانہ ہونے کے بعد تارکین وطن کی کشتی سمندر کی بلند لہروں کی لپیٹ میں آ کر ڈوب گئی ہے۔

18 ستمبر، 2023 کی اس تصویر میں اٹلی کے کوسٹ گارڈز سیسلی کے جزیرے کے قریب تارکین وطن کو کشتی ڈوبنے کے بعد محفوظ مقام پر منتقل کرتے ہوئے(تصویر: روئٹرز)

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن (آئی او ایم) یا بین الاقوامی ادارہ برائے تارکین وطن نے کہا ہے کہ لیبیا کے ساحل کے قریب کشتی ڈوبنے سے کم از کم 61 تارکین وطن لاپتہ ہو گئے ہیں اور ان کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ جان سے جا چکے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہفتے کو آئی او ایم کے لیبیا دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’خیال کیا جاتا ہے کہ لیبیا کے شمال مغربی ساحل پر زوارہ سے روانہ ہونے کے بعد تارکین وطن کی کشتی سمندر کی بلند لہروں کی لپیٹ میں آ کر ڈوب گئی جس کے نتیجے میں تارکین وطن جان سے گئے۔‘

بیان میں زندہ بچ جانے والوں کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’کشتی پر تقریباً 86 تارکین وطن سوار تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ تارکین وطن کا تعلق نائجیریا، گیمبیا اور دیگر افریقی ممالک سے تھا۔‘

آئی او ایم کا کہنا ہے کہ ’25 افراد کو بچا کر لیبیا کے حراستی مرکز منتقل کر دیا گیا ہے۔ زندہ بچ جانے والے تمام افراد کی حالت ٹھیک ہے اور انہیں آئی او ایم کے عملے نے طبی امداد فراہم کی ہے۔‘

اٹلی کے راستے یورپ پہنچنے کی امید میں سمندری سفر کا خطرہ مول لینے والے تارکین وطن کے لیے لیبیا اور تیونس سفر کا آغاز کرنے کے لیے اہم ملک ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تارکین وط کے مطابق رواں برس تیونس اور لیبیا سے ایک لاکھ 53 ہزار سے زیادہ تارکین وطن اٹلی پہنچے۔

اٹلی کی انتہائی دائیں بازو کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے غیر قانونی تارکین وطن کو روکنے کے عزم کے ساتھ گذشتہ سال انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔

میلونی کی سخت دائیں بازو کی حکومت نے اب تک امدادی بحری جہازوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں جو شمالی افریقہ سے خطرناک راستہ عبور کرنے کی کوشش کرنے والے لوگوں کو بچاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ان کے نقطہ نظر کو ہفتے کو روم کا دورہ کرنے والے برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے سراہا۔

دونوں رہنماؤں نے اپنے ممالک کے ساحلوں پر تارکین وطن کی کشتیوں کی آمد روکنے اور انسانی سمگلروں سے نمٹنے کی کوششوں کو تیز کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

اقوام متحدہ نے وسطی بحیرہ روم میں تارکین وطن کی طرف اختیار کیے جانے والے راستے کو دنیا کا جان لیوا ترین راستہ قرار دیا ہے جہاں ہر سال سینکڑوں افراد گنواتے ہیں۔

آئی او ایم کے ترجمان فلاویو ڈی گیاکومو نے ہفتے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’وسطی بحیرہ روم کے تارکین وطن کے راستے پر رواں سال 2250 سے زیادہ لوگوں کی جان گئی۔ اموات کے ان بڑے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے سمندر میں انسانی جانوں بچانے کے لیے کافی اقدامات نہیں کیے جا رہے۔‘

اس سے قبل رواں برس ہی لیبیا سے اٹلی جانے والی ماہی گیروں کی کشتی ایڈریانا 14 جون کو جنوب مغربی یونان کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں ڈوب گئی تھی۔

حادثے میں زندہ بچ جانے والوں کے مطابق کشتی میں زیادہ تر شامی، پاکستانی اور مصری شہری سوار تھے جن میں صرف 104 زندہ بچے جبکہ اور 82 لوگوں کی لاشیں ملیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا