بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے اور کرفیو نما صورت حال کے خلاف آواز اٹھانے والی انسانی حقوق کی سرگرم کارکن اور کشمیری سٹوڈنٹ رہنما شہلا رشید کے خلاف بغاوت کا مقدمہ دہلی میں درج کر لیا گیا ہے۔ بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کی خبر کے مطابق دہلی پولیس کے سپیشل سیل نے 3 ستمبر کو تعزیرات ہند کی متعلقہ شقوں کے تحت یہ مقدمہ درج کیا۔
شہلا نے گذشتہ ماہ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کچھ پیغامات شئیر کیے تھے جن میں کہا گیا تھا کہ بھارتی فوجی کشمیر میں شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس پر ایک بھارتی وکیل نے ان کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی تھی اور کہا کہ انہیں گرفتار کیا جائے کیونکہ وہ بھارتی فوج کے خلاف ’جعلی خبریں‘ پھیلا رہی ہیں۔
جمعے کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایف آئی آر کے بارے میں ایک اعلان میں شہلا نے اس قدم کو ’غیر سنجیدہ اور سیاسی‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ انہیں خاموش کرنے کی ایک کوشش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر شکایات میں وہ بھی درخواست گزار ہوئی ہیں اور ان کا کیس مضبوط ہے۔
06 Sep, 2019
— Shehla Rashid شہلا رشید (@Shehla_Rashid) September 6, 2019
Statement on FIR against me filed by the Special Cell of Delhi Police
I have learnt from media reports that the Special Cell of the Delhi Police has filed an FIR against me for speaking out on the clampdown in Kashmir and the denial of basic rights to Kashmiris. pic.twitter.com/8GjJzCYo04
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کی ٹویٹس میں جو باتیں درج ہیں وہ ان کو کشمیر میں رہنے والوں نے بتائی ہیں، اور جب کشمیر میں مواصلاتی پابندیاں نافذ ہیں تو ایسے میں وہاں کے لوگوں کی آوازوں کو سامنے لانا بہت ضروری ہے تاکہ بھارتیوں کو معلوم ہو کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
انہوں نے سب سے اپیل کی کہ وہ کشمیریوں کے حق کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔
اپنی ٹویٹس کی وجہ سے شہلا گذشتہ کچھ ہفتوں سے سوشل میڈیا پر بھارتی ٹرولز کے نشانے پر رہیں۔
کشمیر میں تشدد
دہلی کی جواہرلال نہرو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ شہلا رشید نے 18 اگست کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کچھ پیغامات شئیر کیے تھے جن میں ان کا کہنا تھا کہ کشمیر میں بھارتی فوج انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے اور شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کشمیر میں مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے لوگوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کشمیر میں شہریوں کے پاس کھانا پکانے کی گیس اور ادویات وغیرہ ختم ہورہی ہیں، جبکہ مواصلاتی بندش کے باعث کئی لوگ اہم ترین واقعات کے بارے میں بھی نہیں جان پا رہے۔
ٹویٹ میں مزید کہا گیا:’فوج رات کو گھروں میں گھس رہی ہے، لڑکوں کو اٹھا کر لے جا رہی ہے، خورونوش کی اشیا کو زمین پر پھینک رہی ہے۔ جبکہ شوپیاں کے علاقے میں فوجی کیمپ میں چار افراد کو پوچھ گچ کے لیے بلایا گیا اور ٹارچر کیا گیا اوران کے قریب مائیک رکھ دیے گئے تاکہ لوگ ان کی چیخیں سن کر ڈر جائیں۔ ‘
9) Armed forces are entering houses at night, picking up boys, ransacking houses, deliberately spilling rations on the floor, mixing oil with rice, etc.
— Shehla Rashid شہلا رشید (@Shehla_Rashid) August 18, 2019
10) In Shopian, 4 men were called into the Army camp and "interrogated" (tortured). A mic was kept close to them so that the entire area could hear them scream, and be terrorised. This created an environment of fear in the entire area.
— Shehla Rashid شہلا رشید (@Shehla_Rashid) August 18, 2019
بھارتی فوج نے شہلا کے الزامات کو ’بےبنیاد‘ قرار دیا ہے، لیکن شہلا کا کہنا ہے کہ ان کی ٹویٹس کشمیر میں مقیم افراد سے بات چیت پر مبنی ہیں اور اگر فوج ان کی تحقیق کرنا چاہتی ہے تو وہ انہیں مزید تفصیلات فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
My reaction to the controversy:
— Shehla Rashid شہلا رشید (@Shehla_Rashid) August 19, 2019
All of my tweets are based on conversations with people. My thread highlights the positive work of the administration too. Let the Army conduct a fair and impartial probe and I'm willing to share the details of the incidents mentioned with them.
شہلا کی ٹویٹس پر بھارت میں سوشل میڈیا پر لوگ سرگرم رہے اور ان کے خلاف اریسٹ شہلا رشید کے ہیش ٹیگ بھی چلے اور ایک ٹی وی چینل نے رائے شماری بھی کروائی کہ آیا ان کو گرفتار کرنا چاہیے یا نہیں۔
CNN News18 ran a poll on their YouTube Page calling for arrest of @Shehla_Rashid; Deleted it when they were questioned. Journalism in #NewIndia wants those critical of Govt to be arrested for an unverified tweet, while govt can keep propagating misinformation with no ramification pic.twitter.com/bsNL3pGmLG
— Pratik Sinha (@free_thinker) August 19, 2019
بھارتی اخبار ’ٹائمز آف ناؤ‘ کے مطابق سپریم کورٹ کے ایک وکیل آلکھ آلوک سریواستو نے 19 اگست کو ان کے خلاف شکایت بھی درج کی کہ وہ بھارتی فوج اور حکومت کے بارے میں ’جعلی خبریں‘ پھیلا رہی ہیں جو بین الاقوامی سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی جارہی ہیں اور بھارت کی شہرت کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔
شکایت میں کہا گیا کہ شہلا کے اقدامات تعزیراتِ ہند کی دفعہ 124-اے کے تحت غداری کے زمرے میں آتے ہیں اور انہیں گرفتار کر لیا جائے۔
شہلا سری نگر کی رہائشی ہیں اور بھارت میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن ہیں۔ انہوں نے مارچ میں کشمیری رہنما شاہ فیصل کی جماعت جموں و کشمیر پیپلز موومنٹ میں شمولیت اختیار کی تھی۔
کشمیر کی حصوصی نیم خودمختار حیثیت ختم کرنے کے 5 اگست کے بھارتی فیصلے پر رواں ماہ اے ایف پی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں شہلا نے کہا تھا کہ وہ اس قدم کی آخر تک مخالفت کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کی زندگیوں سے متعلق اتنے اہم فیصلے کے بارے میں ان کو پہلے بتایا ہی نہیں گیا۔
شہلا کے بقول: ’بھارتی حکومت ایک منتخب حکومت کی طرح نہیں پیش آ رہی ہے۔ یہ ایک بڑی آبادی کا منہ بند کروا رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ان کو خود اپنے فیصلوں کی قانونی ہونے پر یقین نہیں ہے اور اس لیےتمام آبادی کو چپ کروا رہے ہیں، تمام مواصلاتی نظام بند ہے، سب رہنما نظربند ہیں اور کشمیریوں کو اس صورتحال پر کشمیریوں کو ردعمل دینے کا موقع نہیں دیا جارہا ہے۔‘