انڈپینڈنٹ اردو کے زیر اہتمام پاکستان کی جامعات میں صحافت کے طلبہ کے لیے شروع کیے گئے پروگرام ’انڈی کیمپس‘ کے تحت کراچی کی سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی میں منعقدہ سیمینار میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ دور جدید میں صحافت کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر اس شعبے میں کیریئر کو آگے کیسے بڑھایا جا سکتا ہے۔
سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی تاریخی حیثیت کی حامل جامعہ ہے، جہاں قائد اعظم ساڑھے چار سال تک زیر تعلیم رہے تھے، جبکہ انہوں نے اپنی ملکیت میں سے جن اداروں کو حصہ دیا، ان میں یہ یونیورسٹی بھی شامل ہے۔
’انڈی کیمپس‘ کے تحت جامعہ کے شعبہ ابلاغ عامہ کے طلبہ کے لیے منعقدہ سیمینار میں انڈپینڈنٹ اردو کے ایڈیٹر ان چیف بکر عطیانی نے طلبہ کو لگن سے تعلیم مکمل کرنے اور صحافت کے شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے نئے آئیڈیاز تخلیق کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کے خیال میں صحافت کی دنیا میں ’بریکنگ نیوز‘ کے لفظ نے اس شعبے کو بہت متاثر کیا ہے کیوں کہ ہر خبر ’بریکنگ نیوز‘ کے زمرے میں نہیں آتی۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے کسی اردو زبان کے ٹی وی چینل کو مات دینا تو مشکل ہے لیکن کم سہولتوں اور عملے کے باوجود یہ ادارہ اپنا ایک منفرد انداز رکھتا ہے۔
بقول بکر عطیانی: ’انڈپینڈنٹ اردو کی خاص بات معیاری خبریں، تخلیقی پہلو اور جامع اور واضح انداز میں خبروں کو عوام الناس تک پہنچانا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر طلبہ جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہو کر نئے آئیڈیاز کے ذریعے تعلیم کے دوران ہی عملی صحافت سیکھنے پر توجہ دیں تو وہ اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔‘
بقول بکر عطیانی: ’دور حاضر میں جس طرح ڈیجیٹل میڈیا فروغ پا رہا ہے اس میں نوجوان بطور صحافی اپنی صلاحیتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس طرح طلبہ کو نہ صرف شعبہ صحافت سے منسلک ہونے کا موقع مل سکتا ہے بلکہ وہ پیشہ ور صحافی بھی بن سکتے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار امر گروڑو نے اس موقعے پر ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’وقت کے ساتھ خود کو اپ گریڈ نہ کیا جائے تو کسی بھی کیریئر کی موت ہو سکتی ہے۔
’خود کو نکھارنے کے لیے جدت کی دنیا میں قدم رکھ کر ہی منزل کا حصول ممکن ہے۔ آج کا دور ون مین شو کا ہے، جہاں رپورٹر ہی کیمرہ مین اور رپورٹر ہی ایڈیٹر ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سندھ مدرسۃ الاسلام کے وائس چانسلر مجیب الدین صحرائی میمن نے سیمینار سے گفتگو میں کہا کہ ’90 کی دہائی میں اخبار اٹھاؤ تو پہلی لائن پڑھتے ہی مستقبل کی فکر لاحق ہو جاتی تھی۔ اتنی بریکنگ نیوز ہوتی تھیں لیکن آج ڈیجیٹل میڈیا کے پھیلاؤ سے صحافت کے شعبے میں نئی جدت آئی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں اکثر طلبہ نے اردو زبان کی اس نیوز ویب سائٹ کو پڑھنے اور دیکھنے کا اعتراف کیا، جس کی وجہ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کی خبروں میں عام فہم الفاظ کا استعمال بتایا، جس سے حالات حاضرہ سے جڑے رہنے میں آسانی رہتی ہے۔
شعبہ صحافت میں زیر تعلیم طالب علم ارسلان خالد کریم نے بتایا کہ انڈپینڈنٹ اردو کی ویڈیو سٹوریز انہیں اچھی لگتی ہیں اور انہی کی وجہ سے وہ ویب سائٹ پر آتے ہیں۔
بقول ارسلان: ’آج کا نوجوان سوشل میڈیا کے ساتھ رشتہ جوڑے ہوئے ہے اور انڈپینڈنٹ اردو نے اپنی ویب سائٹ کے علاوہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر گرفت بنائی ہوئی ہے۔ چاہے وہ انسٹاگرام ہو یا فیس بک۔ میں دونوں سماجی سائٹس پر جب بھی آتا ہوں تو انڈپینڈنٹ اردو کو لازمی وزٹ کرتا ہوں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔