اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کی سربراہ رائنہ سعید خان ستی نے تصدیق کی ہے کہ گذشتہ نو مہینوں سے وفاقی دارالحکومت کے ریسکیو سینٹر میں موجود ’بابو‘ نامی بنگالی شیر کے بچے کو کرسمس کے بعد جنوبی افریقہ منتقل کر دیا جائے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنوبی افریقہ میں شیروں کی پناہ گاہ ہے، جہاں ایک سالہ ’بابو‘ کی بہتر دیکھ بھال ہو سکے گی۔
ممبر اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ وقار ذکریا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بابو کی روانگی میں تاخیر بورڈ کے لیے مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ شیر بڑا ہو رہا ہے اور بورڈ کے پاس اس کی دیکھ بھال اور خوراک کے لیے وسائل موجود نہیں ہیں۔‘
’بابو‘ وائلڈ لائف بورڈ کے پاس کیسے آیا؟
سال رواں کے شروع میں بورڈ کو اسلام آباد کے کچھ رہائشیوں نے اطلاع دی کہ شہر کے ایک ویٹرنری کلینک میں شیر کے بچے کو دیکھا گیا ہے۔
وقار ذکریا نے بتایا کہ کلینک سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ شیر کی ہڈیاں کمزور ہیں جس کا علاج ایک مہنگا آپریشن ہے۔
’مالک سے رابطہ کیا تو انہوں نے آپریشن کا خرچہ برداشت کرنے سے اور جانور کو رکھنے سے معذوری کا اظہار کر دیا۔‘
وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ نے شیر کو ویٹرنری کلینک سے ریسکیو سینٹر، جو اسلام آباد کے متروک چڑیا گھر میں قائم ہے، منتقل کیا۔
اسلام آباد ریسکیو سینٹر میں شیر کے اس بچے کو ’بابو‘ کا نام دیا گیا اور اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری دو سٹاف ممبرز انیلا اور ثنا کو سونپی گئی۔
’بابو‘ کو بیماری کیا ہے؟
ویٹرنری ڈاکٹر کے خیال میں بابو کی ہڈیا نہ صرف کمزور ہیں بلکہ ان کی بڑوھتی بھی بہت سست ہے اور اس کا واحد حل ایک آپریشن ہے۔
تاہم وائلد لائف منیجمنٹ بورڈ کے ماہرین کے خیال میں بہتر خوراک اور دیکھ بھال کے ذریعے بابو کی صحت نارمل ہو سکتی ہے۔
وقار ذکریا کے مطابق شیر کے پہلے مالک نے تین مہینے کے جانور کو خریدنے کے بعد کافی عرصے تک ایک تنگ اور تاریک کمرے میں بند رکھا جب کہ اس کی خوراک بھی مناسب نہیں تھی۔
’دھوپ نہ لگنے کی وجہ سے معصوم جانور کی ہڈیاں ٹھیک سے نہیں بن رہیں تھیں۔‘
وقار ذکریا نے بتایا کہ ریسکیو سینٹر میں بہتر خوراک اور دیکھ بھال کی وجہ سے تین مہینے میں ہی بابو کی حالت بہت بہتر ہو گئی ہے۔
’بابو‘ کو باہر کیوں بھیجا جا رہا ہے؟
وقار ذکریا کا کہنا تھا کہ کہ وفاقی دارالحکومت میں چڑیا گھر نہیں ہے جبکہ معصوم جانور کو اس کی صحت کی پیچیدگیوں کے باعث جنگل میں بھی نہیں چھوڑا جا سکتا۔
اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے لیے بابو کو رکھنا بھی ممکن نہیں اور اس کی بڑی وجہ وسائل کی کمی بتائی جاتی ہے۔
وقار ذکریا نے بتایا کہ اس وقت بابو روزانہ چار کلو بغیر ہڈی کا گوشت کھاتا ہے، جس پر بورڈ کا ایک لاکھ روپے ماہانہ خرچ اٹھا رہا ہے۔
’بابو جب چھوٹا تھا تب بھی ہم اس پر 40۔50 ہزار روپے ہر مہینے خرچ کر رہے تھے۔‘
بابو کو ملک سے باہر کسی پناہ گاہ میں بھیجنے کی سب سے بڑی وجہ اسے قدرتی ماحول میں زندگی گزارنے کے مواقعے فراہم کرنا ہیں۔
وقار ذکریا کا کہنا تھا: ’ہمارے لیے شیر کے بچے کو بہتر خوراک اور دیکھ بھال فراہم کرنا ایک مسئلہ ہے۔ بابو بڑا ہو رہا ہے اور عمر بڑھنے کے ساتھ مسائل میں بھی اضافہ ہو گا۔‘
اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ نے اس صورت حال کے پیش نظر بابو کو جنوبی افریقہ میں شیروں کی پناہ گاہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
وقار ذکریا نے بتایا: ’اس سینکچیوری میں وسائل بھی موجود ہیں اور شیر بھی۔ اس لیے بابو کے لیے وہاں جانا ہی بہتر فیصلہ ہے۔‘
وقار ذکریا نے مزید بتایا کہ جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور پاکستان میں جنوبی افریقہ کے ہائی کمیشن سے مذاکرات کے نتیجے میں سینکچیوری کی انتظامیہ نے بابو کو رکھنے کی حامی بھر لی۔
’بابو‘ کو بھیجنے کے وسائل کون فراہم کرے گا؟
وقار ذکریا نے تسلیم کیا کہ اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے پاس بابو کو بیرون ملک بھیجنے کے وسائل موجود نہیں تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد کی ایک مقامی این جی او سیکنڈ چانس وائلڈ لائف کے تعاون سے جنوبی افریقہ منتقل کرنے کے لیے بابو کے لیے پنجرے کا بندوبست کیا گیا۔
بابو کو جنوبی افریقہ منتقل کرنے سے متعلق دوسرے دستاویزات تیار ہیں اور اب دونوں ملکوں کے ویٹرنری سرٹفیکیٹس کی ضرورت ہے۔
وقار ذکریا کا کہنا تھا کہ بابو کو جلد از جلد منتقل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ اس کے وزن اور سائز میں اضافہ ہو رہا ہے۔
’اگر اس کی منتقلی میں مزید دو ماہ کی تاخیر ہو گئی تو بابو بڑا ہو جائے گا اور جو پنجرہ موجود ہے اس کا سائز چھوٹا پڑ سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ تاخیر کی سورت میں بابو کے وزن کے حساب سے نیا پنجرا بنوانا پڑے گا۔
ریسکیو سینٹر میں موجود ریچھ بھی خطرے میں
اسلام آباد وائلڈ لائف منیجمنٹ بورڈ کے زیر اہتمام کام کرنے والے ریسیکو سینٹر میں سات کالے ریچھ اور لاتعداد بندر بھی موجود ہیں۔
وقار ذکریا کا کہنا تھا کہ بورڈ کالے ریچھوں کو فی الحال کہیں منتقل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جانوروں کو ریسکیو سینٹر میں رکھنے کے لیے وسائل درکار ہیں جو کہ بورڈ کے پاس موجود نہیں ہیں اور اس لیے کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی ٹھنڈے علاقے میں ریچھوں کے لیے سینکچیوری بنائی جائے۔
’سینچیوری اس لیے ضروری ہے کہ ریچھوں کے لیے اسلام آباد کا موسم موافق نہیں ہے۔‘
دسمبر 2021 میں دنیا کے تنہا ترین ایشیائی ہاتھی کاون کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر کمبوڈیا منتقل کیا گیا تھا۔ دو ہمالین بھورے ریچھ سوشی اور ببلو کو اردن منتقل کیے گئے جس کے بعد اسلام آباد کا واحد چڑیا گھر بند کر دیا گیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جانوروں کی ناگفتہ بہ حالت کے باعث جانوروں کو چڑیا گھر سے مخفوظ مقام منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
بعدازاں چڑیا گھر کو وائلڈ لائف ری ہیبلیٹیشن اور ریسیکو سینٹر میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔