آسٹریا سے آنے والے جانوروں کے ماہر ڈاکٹر امیر خلیل کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے چڑیا گھر کا ہاتھی کاون اب بہت خوش ہے اور ان کی کم عرصے میں ہی اُس سے دوستی اور قربت ہو گئی ہے۔
پاکستان میں 35 برس گزارنے والا ہاتھی کاون 29 نومبر کو پاکستان سے کمبوڈیا روانہ ہو جائےگا، جہاں وہ ایشیائی ہاتھیوں کے لیے خصوصی چراگاہ میں اپنی باقی زندگی گزارے گا۔ ڈاکٹر امیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تین مہینے پہلے اور آج کے کاون کے رویے میں واضح فرق نظر آتا ہے۔
کاون کو کمبوڈیا کیسے لے جایا جائے گا؟
آسٹریا اور کینیڈا سے جانوروں کے ماہرین کی ٹیمیں اگست سے پاکستان میں موجود ہیں۔ ٖڈاکٹر امیر نے بتایا کہ جب وہ آئے تھے تو کاون کا وزن بہت زیادہ تھا۔ ’اسلام آباد چڑیا گھر کا عملہ ہاتھی کو روزانہ 200 کلو گنا کھلاتا تھا جس کی وجہ سے اس کا وزن بہت بڑھ چکا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے ہاتھی متحرک بھی نہیں تھا جو اس کے لیے مزید ڈپریشن کا باعث تھا۔انہوں نے بتایا کہ پہلا مرحلہ تو یہ تھا کہ کاون کی ذہنی اور جسمانی صحت ٹھیک کی جائے تاکہ وہ بخوشی سفر کے لیے تیار ہو سکے، اس مقصد کے لیے کاون کی خصوصی ڈائٹ تیار کی گئی، جس میں روزانہ کی بنیاد پر گنے کی مقدار دو سو کلو گرام سے کم کر کے 30 کلو گرام کی گئی، اس کے علاوہ اُس کی خوراک میں سلاد اور مختلف فروٹ شامل کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ تین ماہ کی محنت سے کاون کا وزن 400 کلو کم کرنے میں کامیاب ہو گئے، وزن کم ہونے کی وجہ سے کاون کی ذہنی صحت پر بھی مثبت اثر پڑا۔’پہلے وہ ایک جگہ پر سویا رہتا تھا لیکن اب وہ پانی میں کھیلتا ہے، اِدھر اُدھر اٹھکیلیاں کرتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ڈپریشن سے باہر نکل آیا ہے اور خوش ہے۔‘
ہم نے کاون کو ڈاکٹر امیر کے ساتھ کھیلتے دیکھ کر اُن سے سوال کیا کہ اس کی آپ سے اچھی دوستی کی وجہ کیا ہے؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ وہ کاون سے چار سال پہلے بھی مل چکے تھے، لیکن اس مرتبہ تین ماہ سے صبح شام وہ کاون کے ساتھ ہیں۔’اسے اپنے ہاتھ سے کھلاتا رہا ہوں اور جانور بھی پیار کی زبان سمجھتے ہیں، اس لیے کاون بھی جلد ہی مجھ سے مانوس ہو گیا۔‘
انہوں نے کہا ’میں کاون کی نفسیات اور اُس کے موڈ اچھے سے سمجھتا ہوں، اسے آواز کے ساتھ اُڑنے والی چیز کو دیکھ کر غصہ آتا ہے۔‘ اس بات کا مشاہدہ ہم نے خود بھی کیا جب وہاں موجود ایک صحافی نے ڈرون کیمرے کا استعمال کیا تو پانی میں کھیلتا کاون ایک دم غصے میں آ کر ڈرون کی جانب لپکا اس پر ڈاکٹر امیر نے صحافی سے کہاکہ وہ ڈرون کیمرے کا استعمال بند کر دیں۔
ڈاکٹر امیر نے مزید بتایا کہ کاون کو وہ خود کمبوڈیا چھوڑنے جائیں گے تاکہ راستے میں کوئی مسئلہ نہ ہو، جس کریٹ میں کاون کو لے کر جانا ہے اس میں داخل ہونے کی ٹریننگ اسے کچھ ہفتوں سے دی جا رہی ہے، وہ اب اپنی مرضی سے کریٹ کے اندر چلا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روانگی کے وقت کاون کو نیم بے ہوشی کا ڈاٹ لگایا جائے گا جس سے وہ سست ہو جائے گا اور کریٹ کے اندر چلا جائے گا، جس کے بعد کریٹ کو بند کر کے کرین کی مدد سے چکلالہ ایئرپورٹ تک لے جائے گا اور پھر خصوصی طیارے میں کریٹ کو رکھا جائے گا۔
ان کے مطابق یہ خصوصی کریٹ اوپر سے ہوا دار ہے تاکہ ہاتھی کو کوئی مسئلہ نہ ہو، خصوصی کریٹ کی اونچائی تین میٹر کے لگ بھگ، لمبائی چھ میٹر اور چوڑائی تقریباً ڈھائی میٹر ہے۔
کاون کون ہے؟
کاون سری لنکن ہاتھی ہے جسے 1985 میں اُس وقت کی حکومت نے پاکستان کو بطور تخفہ دیاتھا۔ یاد رہے کہ اُس وقت جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی اور ان کی بیٹی کو یہ ہاتھی پسند آ گیا تھا جس کے بعد اس ایک سالہ ہاتھی کو سری لنکن حکومت نے پاکستان بھجوا دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسلام آباد اور گرد نواح میں رہنے والی کئی نسلیں کاون کو مرغزار کے چڑیا گھر میں دیکھ کر جوان ہوئیں اور سب کی ہی کاون سے یادیں جُڑی ہیں۔ جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے سی ڈی اے عملے کے مطابق ہاتھی ایک سماجی جانور ہے جس کا اکیلا رہنا مشکل ہے اسی لیے ایک مادہ ہاتھی ’سہیلی‘ کو لایا گیا تھا، جو کاون کے ساتھ بیس اکیس سالہ رفاقت کے بعد مئی 2012 میں انتقال کر گئی۔
اس کے بعد سے کاون کی حالت بدتریج خراب ہوتی گئی اور اُس کی طبعیت میں غصہ بھر گیا جسے کنٹرول کرنے کے لیے عملے کو مجبوراً کاون کو زنجیروں میں جکڑنا پڑا۔ کاون کو زنجیروں میں جکڑا دیکھ کر سوشل میڈیا پر مہم نے زور پکڑا تو کینیڈا اور آسٹریا میں جانوروں کے تخفظ کی دو بین الاقوامی تنظیموں نے حکومت پاکستان سے رابطہ کیا۔
اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی جس کے بعد عدالت نے چڑیا گھر کے تمام جانوروں کو محفوظ اورقدرتی ماحول میں بھیجنے کی ہدایت دی۔ ان دنوں پاکستان میں موجود جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی امریکی سنگر شر نے بھی ٹویٹر پر کاون کی گرتی صحت کےحوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اسے محفوظ مقام پر منتقل کرنے کے لیے مہم چلائی۔
وہ جمعے کو وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملیں اور ہاتھی کو کمبوڈیا بھیجنے کے فیصلے پر انہیں سراہا۔ شیر خود کل کاون کو کمبوڈیا روانہ کریں گی۔