کاروباری ہفتے کے چوتھے روز سٹاک مارکیٹ میں کاروبار کے آغاز میں 289 پوائنٹس کی تیزی تو دیکھی گئی تاہم اس کے بعد 645 پوائنٹس کی مندی بھی آگئی، اس صورت حال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس گرواٹ کے پیچھے آخر کون سے عوامل شامل ہیں؟
جمعرات کو پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا آغاز مثبت ہوا، لیکن کچھ دیر بعد ہی 100 انڈیکس 100 پوائنٹس کمی کے ساتھ 62 ہزار 200 پر آگیا۔ دورانِ کاروبار 100 انڈیکس میں گراوٹ کا سلسلہ برقرار رہا اور 450 سے زائد پوائنٹس مزید کم ہونے کے بعد انڈیکس 61 ہزار 900 پر آگیا۔
سرمایہ کار ظفر موتی والا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ’مارکیٹ بہت تیزی سے اوپر گئی جس کی وجہ سے مارکیٹ میں تصحیح دیکھنے میں آئی۔ لوگ شرح سود زیادہ دے رہے تھے۔ مستقبل میں30 سے 35 فیصد شرح سود دینا ممکن نہیں لگ رہا۔ اس لیے تیزی سے شیئرز بیچے جا رہے ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کچھ روز میں ایک بار پھر مارکیٹ دوبارہ ریکور کرتی نظر آئے گی لیکن جب تک سال کے اختتام پر کلیئرنگ ہوگی تو مارکیٹ آئندہ ہفتے بھی ہچکولے کھاتی نظر آئے گی۔ کیونکہ اس سال کا ہمارا روول اوور ختم ہوا ہے جو 42 ارب روپے کا ہے۔ کمزور اور طاقتور خریداروں کا جنوری میں نیا سال شروع ہوگا تو پھر وہ شیئرز کی خریداری دوبارہ شروع کریں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے بتایا کہ مارکیٹ گرنے سے نقصان تو ہوتا ہے لیکن موجودہ حالات میں نقصان اتنا نہیں ہوا کہ ہم پریشان ہو جائیں۔
’گذشتہ روز کاروبار کے آغاز میں 100 انڈیکس 400 پوائنٹس اضافے سے 63 ہزار 200 پر جا پہنچا۔ تاہم پہلے سیشن کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس ایک دم 822 پوائنٹس مزید گر کر کل کی سطح سے بھی نیچے آگیا۔‘
صحافی اسلم خان نے تجزیہ دیتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سٹاک مارکیٹ پر تین روز سے چھائے مندی کے بادل جمعرات کو چھٹ گئے گو کہ دونوں سیشن کے دوران بیشتر وقت سٹاک مارکیٹ منفی زون میں تھی تاہم آخری گھنٹے میں سٹاک مارکیٹ پلس ہوئی اور 245 پوائنٹس اضافے سے 62ٰ ہزار693 پوائنٹس پر کاروبار کا اختتام ہوا۔‘
ان کے بقول: ’گذشتہ تین روز مارکیٹ میں تقریبا 3681 پوائنٹس کی کمی ہوئی ہے، جمعرات کو بھی مارکیٹ میں مندی کے بادل چھائے ہوئے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ مسلسل چوتھے روز بھی مارکیٹ کا اختتام منفی زون میں ہی ہوگا۔
’مندی سے قبل سٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی کی لہر بھی آئی تھی، تیزی اور مندی کی لہر کو ہمیں سمجھنا ہوگا۔‘
کریک ڈاؤن کے اثرات
اسلم خان نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’دو اکتوبر کو پاکستان سٹاک مارکیٹ کا 100 انڈیکس 46232 تھا، اکتوبر میں پاکستان نے سمگلنگ مافیا اور ڈالر ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اس کے اثرات سٹاک مارکیٹ میں دیکھے گئے اور مارکیٹ میں تیزی آنا شروع ہوئی اس کے بعد آئی ایم ایف سے مذاکرات میں مثبت پیشرفت اور عام انتخابات آٹھ فروری کو کرانے کے اعلان کے بعد تو گویا سٹاک مارکیٹ فل سپیڈ پر آگئی۔‘
اسلم خان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہر روز ایک نیا ریکارڈ بننے لگا اور 12 دسمبر تک یعنی دو ماہ 10 روز بعد سٹاک مارکیٹ 66423 کی بلند ترین سطح تک پہنچی اور انڈیکس میں مختصر مدت کے دوران 20 ہزار سے زائد پوائنٹس کا اضافہ ہوا جو ایک ریکارڈ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ جب مارکیٹ 52 ہزار تک پہنچی تھی اس وقت بڑے سرمایہ کار اور مارکیٹ میں اثر رکھنے والے یہ پیش گوئی کر رہے تھے کہ مارکیٹ 60 ہزار تک جائے گی لیکن یہ ان کی توقع سے بھی زیادہ یعنی 66 ہزار تک گئی۔
’اس دوران چھوٹے اور بڑے سرمایہ کار یہ بات جانتے تھے کہ اب مارکیٹ میں اصلاح آنی ہے اور انڈیکس واپس ریورس گیئر پر جائے گا۔ جب سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی لہر آئی تھی، حکومتی اور معاشی طور پر اچھی خبریں آرہی تھیں تو سرمایہ کاروں نے ادھار پر حصص لے کر مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی۔ ’لیکن اب جب مارکیٹ میں کریکشن آنا شروع ہوئی ہے تو چھوٹے اور بڑے دونوں سرمایہ کار اپنے حصص فروخت کر رہے ہیں، چھوٹے سرمایہ کار سرمایہ ڈوبنے کے خوف سے بڑے پیمانے پر حصص کی فروخت کر رہے ہیں جنہوں نے ادھار پر حصص لیے وہ بھی اب چاہتے ہیں کہ حصص فروخت کر دیں۔ یہی وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے مارکیٹ مندی کا شکار ہورہی ہے۔‘
انہوں نے سٹاک مارکیٹ کے مینیجنگ ڈائریکٹر فرخ خان کا حوالہ دیا کہ وہ کہتے ہیں کہ دسمبر میں مارکیٹ رول اوور ہوتی ہے، بروکرز اپنی کتابیں بند کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹ میں سال کے آخری دو ہفتوں میں کریکشن اور گراوٹ ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ صورت حال جلد بہتر ہوگی۔‘