اکرم نجی کمپنی میں ملازم ہیں۔ ان کی تعلیم ایم اے اکنامکس ہے۔ ماہانہ 25 ہزار روپے کماتے ہیں۔ چار بچوں، بیوی اور بوڑھے والدین کی ذمہ داری ان پر ہے۔ بجلی، گیس کے بلوں اور گھر کے کرائے کی ادائیگی کے بعد ان کی تنخواہ پہلے 15 دنوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے بقیہ 15 دن ادھار مانگ کر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
محلے کے دکاندار کا چار ماہ کا ادھار ہے۔ اب اس نے بھی ادھار سامان دینا بند کر دیا ہے۔ بچوں کو سکول جانے سے روک دیا ہے اور گھر میں فاقوں کی نوبت آ پہنچی ہے۔ اکرم پریشان ہیں کہ وہ زندگی کا پہیہ کیسے چلائیں۔
کل رات جب وہ گھر پہنچے تو انھوں نے ٹی پر خبر دیکھی کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی کا رجحان جاری ہے، بینچ مارک کے ایس ای-100 انڈیکس 800 پوائنٹس اضافے کے بعد تاریخ میں پہلی بار 64 ہزار کی نئی بُلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
اکرم سوچتے ہیں کہ 100 انڈیکس میں تاریخی اضافے کے بعد بجلی، گیس، آٹا، چاول کی قیمتوں اور مہنگائی میں کمی ہونے کی بجائے گیس کی قیمتیں 280 فیصد تک بڑھا دی گئی ہیں، نیپرا نے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں بجلی کی قیمتوں میں فی یونٹ تین روپے سے زائد کا اضافہ کر دیا ہے اور مہنگائی بڑھ کر 29.2 تک پہنچ چکی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سٹاک ایکسچینج میں بہتری اعداد وشمار کا گورکھ دھندا ہے۔ میں سٹاک ایکسچینج میں بہتری اس وقت مانوں گا جب 100 انڈیکس بڑھنے سے میری تنخواہ میں اضافہ ہو، میرے بچے واپس سکول جا سکیں اور میرے گھر میں سب تین وقت پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سٹاک ایکسچینج میں تاریخی اضافہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’تقریباً 35 ملین ڈالرز کی پورٹ فولیو انویسٹمنٹ باہر سے آئی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو کچھ ایسا پتہ ہے جس کا علم ہمیں نہیں ہے۔ جی سی سی کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدہ ہونے کی بھی خبریں ہیں۔ بینکوں نے بھی تقریباً 150 ارب روپے کامنافع شئیر ہولڈرز کو دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’کمپنیوں کی کارکردگی، بروکرز کی نیت اور افواہیں، ان تینوں پہلوؤں میں بہتری نظر آ رہی ہے۔ تجارتی خسارہ بھی کم ہوا ہے۔ بہتری تو آ رہی ہے لیکن فی الحال اس میں عوام کے لیے فوری طور پر کچھ نہیں ہے۔ اس بہتری کا مہنگائی کم کرنے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’دنیا میں عوام کی بڑی تعداد سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتی ہے اس لیے اسے معیشت کے اشاریے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان کی آبادی تقریباً 25 کروڑ ہے اور صرف ڈھائی لاکھ لوگ سٹاک مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہیں، اس لیے پاکستان میں سٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔
’ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے صرف 33 خاندان ایسے ہیں جو سٹاک مارکیٹ پر حکمرانی کرتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ کی بہتری سے فائدہ صرف انہی 33 خاندانوں کو ہوتا ہے نہ کہ عوام کو۔‘
کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سٹاک ایکسچینج میں بہتری انتظامی طور پر مانیٹرنگ کی وجہ سے آئی ہے۔ غیر حقیقی اتار چڑھاؤ نہیں ہے۔ ڈالر ریٹ میں استحکام کی وجہ سے بھی سٹاک بہتر ہو رہا ہے۔ بلیک منی سٹاک میں انویسٹ ہو رہی ہے۔ گو کہ بلیک منی سے سٹاک میں ٹریڈ کرنے کے کافی راستے بند ہو چکے ہیں لیکن ابھی بھی اچھی خاصی گنجائش موجود ہے۔‘
صرف ڈھائی لاکھ لوگ سٹاک مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ اس لیے پاکستان میں سٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’سٹاک ایکسچینج میں منافع بڑھنے سے مہنگائی کم ہونے کی بجائے بڑھ سکتی ہے۔ جب ایلیٹ کلاس کے منافع بڑھتے ہیں تو ان کی خریداری کی طاقت بھی بڑھتی ہے، جس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔‘
ٹاپ لائن سکیورٹیز کے ڈپٹی ہیڈ آف ریسرچ سنی کمار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’سٹاک ایکسچینج میں بہتری کی بڑی وجہ بیرونی سرمایہ کاروں کی پاکستانی سٹاک میں دلچسپی ہے۔ بینک اور آئل سیکٹر میں بھاری سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ اپریل 2024 تک شرح سود میں کمی ہونے کی خبریں ہیں، جس کی وجہ سے مارکیٹ بڑھ رہی ہے۔
’ابھی اس میں مزید گنجائش موجود ہے۔ ہمارے شیئرز ابھی تک انڈرویلیو ہیں۔ سٹاک ایکسچینج میں بہتری کا عوام پر فوراً اثر نہیں پڑتا۔ اس کے اثرات لانگ ٹرم میں آتے ہیں۔ اگر بڑی کمپنیاں منافع کمائیں گی تو اس کے اثرات عام آدمی پر پڑیں گے، لیکن اس کے لیے وقت لگے گا۔‘