خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی وزارت نجکاری کو ایک خط کے ذریعے پاکستان انٹرنیشنل (پی آئی اے) کی نیلامی میں حصہ لینے اور ادارے کو خریدنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔
وفاقی وزارت کو بھیجے گئے خط کے مطابق یہ فیصلہ خیبر پختونخوا حکومت نے قومی ایئرلائن کی ساکھ برقرار رکھنے اور وفاقی حکومت کی جانب سے اس کو اونے پونے داموں بیچنے سے روکنے کے غرض سے کیا ہے۔
خیبر پختونخوا بورڈ آف انویسنٹمنٹ کی جانب سے لکھے گئے خط میں بتایا گیا ہے کہ پی آئی اے کی سب سے بڑی بولی 10 ارب روپے کی لگی ہے اور خیبر پختونخوا حکومت اس سے زیادہ قیمت پر قومی ایئرلائن خریدنے پر تیار ہے۔
اس حوالے سے خیبر پختونخوا کے مشیر خزانہ مزمل اسلم نے گذشتہ روز انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ صوبائی حکومت کے پاس 100 ارب روپے کیش میں پڑے ہیں اور اگر وفاقی حکومت چاہے تو صوبائی حکومت فوراً 20 ارب روپے پر پی آئی اے خریدنے کو تیار ہے۔
تاہم مبصرین کے خیال میں خیبر پختونخوا حکومت کا یہ فیصلہ محض ’سیاسی ٹرولنگ‘ کی ایک مثال ہے، جب کہ درحقیقت صوبے کی معاشی حالت کے پیش نظر زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر ڈاکٹر محمد علی سیف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پی آئی اے کی خریداری کے لیے خیبر پختونخوا حکومت ہر حد تک جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے متعلقہ صوبائی حکام کو بولی کے لیے تمام تیاریاں مکمل کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں اور انشااللہ قومی اثاثے کو سیاسی مافیا کے چنگل سے آزاد کر کے منافع بخش ادارہ بنائیں گے۔‘
بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ ’پی آئی اے کو اس نہج تک پہنچانے والی مافیا کی بولی میں دلچسپی سمجھ سے بالاتر ہے۔ جس نے ایک منافع بخش ادارے کو تباہ کیا وہی بولی میں پیش پیش ہیں۔ شریف اور زرداری خاندانوں کی وجہ سے تمام ادارے خسارے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ قومی اثاثوں کو سیاسی مافیا ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘
خیبر پختونخوا کے وسائل
انڈپینڈنٹ اردو نے کوشش کی ہے کہ اعداد و شمار کو سامنے رکھ کر مبصرین سے بات کریں اور یہ جان سکیں کہ خیبر پختونخوا حکومت کے پاس اتنے پیسے ہیں بھی یا نہیں کہ پی آئی اے خرید کر اسے چلایا جا سکے؟
خیبر پختونخوا کے مالی سال 2024۔25 کے بجٹ کا کل حجم ایک کھرب 700 ارب روپے ہے، جس میں ایک کھرب 200 ارب روپے سے زیادہ وفاقی حکومت سے ٹیکسز، بجلی کا خالص منافع اور قبائلی اضلاع کے ترقیاتی فنڈ کی مد میں ملنے کی توقع ہے۔
بجٹ دستاویزات کے مطابق صوبے کی اپنی سالانہ آمدن 93 ارب روپے تک ہے، جس میں تقریباً 63 ارب صوبائی ٹیکسز اور 30 ارب روپے سے زیادہ اس کے علاوہ کی آمدن ہے۔
پی آئی اے کے اخراجات
پی آئی اے کی فنانشل رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023 میں قومی ایئر لائن کا خسارہ 70 ارب روپے سے زیادہ رہا۔
پاکستان اکنامکنس سروے 2023 کے رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022۔23 کے دوران پی آئی اے کے سالانہ اخراجات 238 ارب روپے سے زیادہ رہے۔
اس کا مطلب ہے کہ پی آئی اے کے اوسط سالانہ اخراجات خیبر پختونخوا کی اپنی آمدن (93 ارب روپے) سے تقریباً دو گنا زیادہ ہیں، پی آئی اے نے مختلف بینکوں سے قرض بھی اٹھا رکھے ہیں، جن کی ادائیگی بھی ضروری ہو گی۔
فیصلہ کیسے ہوا؟
اب سوال اٹھتا ہے کہ پی آئی اے کی سالانہ اخراجات اور اس کے خسارے کو برداشت کرنے کے لیے خیبر پختونخوا حکومت کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں تو قومی ایئر لائن کو خریدنے کا فیصلہ کیسے کیا گیا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال کے جواب میں ایوی ایشن امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار طاہر عمران میاں نے انڈپینڈنٹ اردو کے خیال میں ’فیصلہ محض سیاسی ٹرولنگ ہے اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت بس ریپیڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) کو مشکل سے چلا پا رہی ہے تو پی آئی اے کو کیسے چلا سکے گی؟
انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا حکومت کو ایئر لائن خریدنے میں اتنی ہی دلچپسی ہے تو چترال، پاڑا چنار اور صوبے کے دیگر ہوائی اڈوں کو بحال کر کے وہاں پروازیں شروع کرے۔‘
طاہر عمران نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت ملک میں دوسری ایئر لائنز سے بات کر کے صوبے میں پروازیں شروع کروائے تاکہ عوام کو سفری سہولیات فراہم ہو سکیں۔
منظور علی روزنامہ ڈان سے وابستہ صحافی ہیں اور گذشتہ 15 سال سے صوبائی حکومت کے بجٹ معاملات کو کوور کرتے رہے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت کے اس فیصلے سے حیرانی اس لیے ہوئی کہ صوبے میں صحت سہولت کارڈ ہر دوسرے روز بند کر دیا جاتا ہے کیونکہ انشورنس کمپنی کو دینے کے لیے حکومت کے پاس پیسے نہیں ہوتے۔
منظور علی نے کہا کہ ’اسی طرح صوبے کی یونیورسٹیز کو خسارے کا سامنا ہے اور گذشتہ ایک سال میں کئی مرتبہ اساتذہ کو تنخواہیں وقت پر ادا نہیں کی جا سکیں ہیں۔‘
منظور کا کہنا تھا، ’صوبائی حکومت کے پاس فنڈز کی کمی ہے اور بعض مواقعوں پر تو تنخواہوں کے پیسے بھی نہیں ہوتے۔ پی آئی اے جیسے بڑے ادارے کو خسارے سمیت خرید کر اس کو چلائیں کے کیسے؟‘
طاہر عمران سمجھتے ہیں کہ ’دراصل یہ سارا کھیل پی آئی اے کے اثاثوں کو ہڑپ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ایئر لائن کو خرید کر بعد میں اس کو بینکرپٹ ڈیکلیئر کرکے اثاثے ہڑپ کر لیے جائیں گے۔‘
خیبر پختونخوا حکومت کی پی آئی اے خریدنے کے لیے 20 ارب روپے کی آفر پر منظور علی نے بتایا کہ ’اتنی رقم میں تو شاید قومی ایئر لائن کی دو تین عمارتیں ہی خریدی جا سکتی ہیں اور صرف پشاور میں واقع پی آئی اے کے دفاتر کی عمارت کی قیمت چھ سے سات ارب روپے کے درمیان ہو سکتی ہے۔‘