افغانستان کے ’آخری یہودی شہری‘ زبولون سیمینتوف کی اسرائیل منتقلی کی خبر پر افغان طالبان کے قطر دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے جمعے کو کہا ہے کہ ان کے ملک میں غیر مسلموں کو قانون کے مطابق حقوق حاصل ہیں جبکہ سفری دستاویزات اور ویزہ رکھنے والے افغان شہری دنیا کے کسی بھی ملک جا سکتے ہیں۔
اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کے قیام کے فوراً بعد کابل سے نکلنے والے واحد افغان یہودی شہری زبولون سیمینتوف جمعرات (13 نومبر) کو اسرائیل پہنچے۔
رپورٹ میں ان کے بڑے بھائی بن یامین کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’وہ جمعرات کی رات ایک فون کال موصول ہونے پر حیران تھے کہ ان کا بھائی اسرائیل پہنچ گیا ہے۔‘
افغان طالبان کے قطر دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے زبولون سیمینتوف کی اسرائیل منتقلی کے سوال پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وہ افغان شہری جن کے پاس سفری دستاویزات اور ویزہ موجود ہیں، وہ دنیا کے کسی بھی ملک جا سکتے ہیں۔‘
افغانستان میں غیر مسلموں کے حقوق کے حوالے سے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’تمام غیر مسلموں کو افغانستان میں قانون کے مطابق حقوق حاصل ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان کے صوبہ ہرات میں 1959 میں پیدا ہونے والے زبولون کابل میں ایک یہودی عبادت گاہ میں رہائش پذیر تھے اور خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق افغان طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد وہ ستمبر 2021 میں ایک پڑوسی ملک چلے گئے تھے۔ اگرچہ اے پی نے پڑوسی ملک کا نام نہیں بتایا تاہم بعض رپورٹس کے مطابق انہوں نے ترکی میں رہائش اختیار کی۔
اے پی کی ایک رپورٹ کے مطابق زبولون 90 کی دہائی میں طالبان کے پہلے دور حکومت میں بھی افغانستان میں ہی تھے لیکن اب ان کا کہنا تھا کہ وہ ’طالبان سے نہیں بلکہ دیگر شدت پسند تنظیموں سے خطرہ محسوس کر رہے تھے۔‘
زبولون نے اگست 2021 میں افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد عرب نیوز کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’انہیں طالبان سے کوئی خطرہ نہیں۔ وہ افغانستان کو نہیں چھوڑیں گے اور کابل میں یہودی عبادت گاہ کی حفاظت کے لیے وہیں رہیں گے۔‘
افغان خبر رساں ادارے طلوع نیوز کے مطابق زبولون قیمتی پتھروں کے کاروبار سے وابستہ تھے۔
اے پی کے مطابق 2001 تک وہ اسحاق لیوی نامی ایک اور یہودی کے ساتھ ایک عبادت گاہ میں رہائش پذیر رہے لیکن بعد ازاں دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔
2001 میں طالبان نے دونوں یہودی شہریوں کو گرفتار کرکے ان کی عبادت گاہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ بعدازاں اسحاق لیوی 2005 میں 80 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔
عرب نیوز کے مطابق زبولون دو مرتبہ افغان فوج میں بھی خدمات سر انجام دے چکے ہیں، جب کہ ان کے دیگر اہل خانہ نے 1992 میں افغانستان چھوڑ دیا تھا۔
زبولون کی مطلقہ بیوی، چار بھائی، دو بہنیں اور دو بیٹیاں اسرائیل، امریکہ اور یورپ میں آباد ہیں۔
افغانستان کے یہودی
افغانستان میں یہودی آبادی کی تاریخ کے بارے میں مستند معلومات تو موجود نہیں لیکن بعض جگہوں سے عبرانی زبان میں ملنے والے پتھروں پر نقش و نگار سے پتہ چلتا ہے کہ یہودیوں کی افغانستان میں موجودگی ایک ہزار سال پرانی ہے۔
لندن میں سکول آف افریقن اینڈ اوریئنٹل سٹڈیز کی افغانستان کے یہودیوں پر ایک تحقیقی مقالے کے مطابق: ’بعض روایات میں افغانستان میں 40 ہزار یہودی آباد تھے لیکن بعض تاریخ دانوں کے مطابق یہ تعداد صرف 2000 تھی۔‘
مقالے کے مطابق یہ یہودی زیادہ تر تجارت کے غرض سے افغانستان میں موجود تھے اور انگریزی کے علاوہ فارسی، دری اور پشتو بول سکتے تھے۔
اسی مقالے میں لکھا ہے کہ 50 کی دہائی میں کابل میں چار یہودی کرنسی کے کاروبار سے بھی وابستہ تھے، جو بعد میں تجارت کی غرض سے دیگر ممالک منتقل ہو گئے۔
افغانستان میں سب سے زیادہ یہودی ہرات میں آباد تھے، جن مین سے کچھ بعد ازاں کابل منتقل ہو گئے، جب کہ کچھ قندہار میں بھی موجود تھے۔
’تاند‘ نامی جریدے میں شائع تحقیقی مقالے کے مطابق جدید افغانستان کے ساتھ وسطی ایشیا سے غیر مسلموں نے تجارت میں بڑا کردار ادا کیا، جن میں یہودی بھی شامل تھے۔
مقالے کے مطابق یہ یہودی قالین، روئی اور خشک میوہ جات کے کاروبار سے وابستہ تھے، جو 19 ویں اور 20 ویں صدی میں ایران اور وسطی ایشیا جا کر ترکمن قبیلے سے کارپٹ کے آرڈرز لیتے تھے اور پھر انہیں جرمنی، لندن اور دیگر ممالک بھجواتے تھے۔
ان ہی یہودیوں میں ہرات سے تعلق رکھنے والے یہودی بھی شامل تھے، جنہوں نے اس کام کے لیے باقاعدہ کمپنیاں قائم کیں، لیکن 1920 میں وسطی ایشیا کے ممالک کی جانب سے افغان یہودیوں کے ساتھ کاروبار ختم کرنے کے بعد بولشیکوک انقلاب کے نتیجے میں کارخانے افغانستان منتقل کر دیے تھے۔
اس کے بعد، مقالے کے مطابق، 30 کی دہائی میں افغانستان میں یہودیوں کے کاروبار پر پابندیاں لگنا شروع ہوئیں، جس کی وجہ ان یہودیوں پر سابق سویت یونین کے لیے جاسوسی کا شک تھا۔
یہودیوں کے کسٹم ہاؤس جانے پر پابندی لگائی گئی اور انہیں ملک کے چھوٹے قصبوں میں رہنے سے منع کر دیا گیا۔
اسی طرح 40 کی دہائی میں جب اسرائیل کے قیام کے باتیں ہونے لگیں تو افغان یہودیوں پر کاروبار کی پابندیاں مزید بڑھا دی گئیں اور ان میں سے اکثر اسرائیل کے قیام کے بعد وہاں منتقل ہونا شروع ہوئے۔
تاہم مقالے کے مطابق افغانستان کے یہودی 1930 سے فلسطین منتقل ہو کر وہاں آباد ہونا شروع ہو گئے۔
افغان یہودیوں کی پشاور اور اسرائیل منتقلی
تاند جریدے کے مقالے کے مطابق 40 کی دہائی میں افغانستان سے بعض یہودی پشاور منتقل ہو گئے اور یہاں کام کا آغاز کیا لیکن پشاور میں ان کے گھروں پر حملے شروع ہو گئے۔
اسی دوران مقالے کے مطابق حملوں میں ایک یہودی خاتون کے قتل اور ان کے شوہر اور بیٹی کے زخمی ہونے کے واقعے کے بعد 1947 میں یہ یہودی پشاور سے ممبئی اور پھر اسرائیل منتقل ہونا شروع ہوگئے۔